واقعہ معراج پر مرزاقادیانی کا دوسرا اعتراض
کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں۔ ’’مافقدت جسد رسول اﷲﷺ‘‘ کہ میں نے معراج کی رات آنحضرتﷺ کے جسم کو مفقود نہیں پایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ معراج جسمانی نہ تھی بلکہ روحانی تھی۔
جواب… یہ روایت چند وجوہ سے مردود ہے۔
اوّل… اس کی سند کا مرکزی راوی محمد بن اسحاق ہے۔ (دیکھئے تفیسر ابن کثیرج۵ ص۱۴۲، البدایہ والنہایہ ج۳ ص۱۱۴) امام دارقطنیؒ کہتے ہیں۔ اس سے احتجاج صحیح نہیں۔ سلیمان تمیمیؒ کہتے تھے کہ وہ کذاب تھا۔ ہشام بن عروہ بھی اس کو کذاب کہتے تھے۔ یحییٰ بن سعید فرماتے تھے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ کذاب تھا۔ (میزان الاعتدال ج۳ ص۲۱) امام مالکؒ فرماتے تھے کہ وہ دجالوں میں کا ایک دجال تھا۔ (تہذیب التہذیب ج۱ ص۴۱) علامہ ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ جب وہ حلال اور حرام میں تنہا روایت پیش کرے تو حجت نہیں۔ (تذکرہ ج۱ ص۱۶۳، درایہ ص۱۹۳) علامہ خطیبؒ لکھتے ہیں کہ وہ مجہول روات سے باطل روایات نقل کیا کرتا تھا۔
(تاریخ بغدادی ج۱ ص۲۲۷)
دوم… اس روایت میں محمد بن اسحاق یوں روایت کرتا ہے۔ ’’حدثنی بعض آل ابی بکرؓ‘‘ کہ خاندان ابوبکر سے مجھ سے کسی نے روایت بیان کی۔ معلوم نہیں کہ وہ بعض کون اور کیسے تھے؟ ثقہ تھے یا ضعیف؟ متقی تھے یا فاسق۔ تو اس روایت میں مجہول راوی بھی محمد بن اسحاق کے ساتھ مل گئے اور علامہ خطیبؒ کا ارشاد صحیح ہوا کہ وہ مجہول روات سے مجہول روایات نقل کرتا تھا۔
سوم… حضرت عائشہؓ کی طرف جو ’’ما فقدت‘‘ وغیرہ کے الفاظ منسوب کئے جاتے ہیں وہ غلط ہیں۔ کیونکہ معراج کے وقت حضرت عائشہؓ کا آنحضرتﷺ سے عقد نہیں ہوا تھا۔ بلکہ کیا بعید ہے کہ ان کی ولادت بھی نہ ہوئی ہو۔ (شفا قاضی عیاضؒ ص۸۹)
چہارم… اس مذکورہ حدیث کی محدثین تضعیف کرتے ہیں۔ قاضی عیاضؒ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں۔ (شفا ص۸۹) اسی طرح علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں۔ (روح المعانی ج۱۵ ص۷) علامہ زرقانیؒ لکھتے ہیں۔ اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے اور راوی مجہول ہے اور ابن دحیہؒ نے تنویر میں لکھا ہے کہ یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے۔ کسی نے صحیح حدیث رد کرنے کی غرض سے اسے بنایا ہے۔ (بحوالہ شرح مواہب ج۶ ص۴)