سے بھرے ہوئے کلام کے مقابلے میں کسی عرب کی ہمت نہ ہوئی کہ اس جیسا فصیح وبلیغ کلام لاسکے۔ آخر عاجز آکر کہنے لگے۔ ’’ان ہذا الا سحر یؤثر (المدثر:۲۴)‘‘
معجزہ:۴… پانی کی سخت ضرورت کے موقع پر آپؐ کے انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلنے کو ایک جم غفیر نے دیکھا سب نے آسودہ ہوکر پانی پیا جن کی تعداد تین سو سے زائد تھی۔
غیرمسلم مستشرق مسٹر پامر کی شہادت
’’چونکہ خدا کی جانب سے القاء ہوکر جذبہ پیغمبری سے قرآن لکھا گیا ہے۔ اس لئے نہایت عمدہ فصیح وبلیغ ہے۔ اگر خدا کی جانب سے القا نہ ہوتا تو صرف محمد(ﷺ) کی ایجاد کردہ گفتگو ہوتی۔ جس میں ان کے خیالات کا اظہار ہوتا تو اس کو یہ کامیابی کبھی حاصل نہیں ہوسکتی تھی کہ ہر ایک عربی بولنے والی قوم اس کو فصاحت وبلاغت کا معجزہ سمجھتی۔ بیشک قرآن کے خوبصورت الفاظ ہی ایسے ہیں کہ وہ پاک خدا کی طرف سے نازل معلوم ہوتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو فصاحت وبلاغت کا مسلمہ سند اور معیار کبھی نہ مانا جاتا۔‘‘ (الہارون ص۲۴)
نبوت کی چوتھی دلیل… سچی پیشین گوئیاں
جس طرح انبیائے سابقین کی پیشین گوئیاں اور خبریں درست نکلیں۔ اسی طرح امی ہونے کے باوجود خرق عادت کے طور پر انبیائے سابقین کے حالات گذشتہ قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں عبرت انگیز واقعات کی جو خبریں دی ہیں ان کی تصدیق گذشتہ تاریخی کتابوں اور آثار قدیمہ سے ہوتی جارہی ہے۔ آئندہ زمانے کے متعلق جو آپؐ نے پیشین گوئیاں کی تھیں جن کا ذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ ان کو پورا ہوتے ہوئے ایک عالم نے دیکھا۔ آپؐ خود سچے تھے۔ آپؐ کی پیشین گوئیاں بھی سچی نکلیں۔ جن کا مختصر تذکرہ کرتا ہوں۔
۱… عمرۃ القضا کے متعلق پیشین گوئی کی تھی کہ مکہ پر کافروں کی حکومت کے باوجود مسلمان پر امن طریقے سے بیت الحرام میں داخل ہوگئے۔ ’’لتدخلن المسجد الحرام انشاء اﷲ اٰمنین (الفتح:۲۷)‘‘ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ آپؐ کی پیشین گوئی پوری ہوئی۔
۲… جنگ فارس وروم کے متعلق پیشین گوئی کی۔ ’’واخریٰ لم تقدروا علیہا (الفتح:۲۱)‘‘ {اور بہت سی فتوحات ہیں جن پر (کبھی) دسترس نہیں ہوئی تھی۔} چنانچہ صحابہؓ کے مقدس ہاتھوں پر روم وفارس کی عظیم الشان فتوحات حاصل ہوئیں۔
قوم ’’اولی باس شدید (بنی اسرائیل:۵)‘‘ {عنقریب تم ایک وحشت ناک قوت ور قوم سے لڑنے کے لئے بلائے جاؤ گے۔ تم ان سے لڑو گے یہاں تک کہ وہ مطیع ہو