پر ہوئے۔ ایمان لاتا ہے اور آپ سے ملتمس ہے کہ آپ اپنے ہاتھ سے اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کے لئے معاون بنیں۔ تاکہ خداتعالیٰ کی برکتیں آپ پر نازل ہوں۔ خدا تعالیٰ سے بندہ کوئی لڑائی نہیں کر سکتا۔ جو امر آسمان پر ٹھہر چکا زمین پر ہرگز بدل نہیںسکتا۔ خداتعالیٰ آپ کو دین اور دنیا کی برکتیں عطاء کرے اور اب آپ کے دل میں وہ بات ڈالے جس کا اس نے آسمان پر سے مجھے الہام کیا ہے۔ آپ کے سب غم دور ہوں اور دین ودنیا دونوں آپ کو خداتعالیٰ عطاء فرماوے۔ اگر میرے اس خط میں ناملائم لفظ ہو تو معاف فرماویں۔ والسلام!
(خاکسار احقر عباد اﷲ غلام احمد عفی عنہ۔ مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۸۹۲ء بروز جمعہ منقول از کلمہ فضل رحمانی)
ناظرین! نکاح کے متعلق مرزاقادیانی کا یہ خط کلمہ فضل رحمانی میں چھپ چکا ہے۔ مرزاقادیانی کے چچازاد بھائیوں سے ایک دیوار کے مقدمہ کے سلسلے میں مرزاقادیانی نے عدالت میں حلفیہ بیان دیتے ہوئے کہا۔ ’’احمد بیگ کی دختر کی نسبت جو پیشین گوئی ہے وہ اشتہار میں درج ہے اور ایک مشہور… وہ مرزاامام الدین کی ہمشیرہ زادی ہے جو خط بنام مرزااحمد بیگ ’’کلمہ فضل رحمانی‘‘ میں ہے وہ میرا ہے۔‘‘ (الحکم مورخہ ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ء ص۱۴)
انگریزی حکومت کے ساتھ مرزاقادیانی کی وفاداری
مرزاقادیانی نے (شہادۃ القرآنص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰) میں گورنمنٹ کی توجہ کے لائق کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اس میں مرزاقادیانی نے اپنے والد غلام مرتضیٰ اور بڑے بھائی غلام قادر کی انگریز پرستی اور ۱۸۵۷ء کے عذر میں جانی اور مالی امداد کے سلسلہ کو فخراً بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انگریزی گورنمنٹ کی شکر گذاری میرے رگ وریشہ میں سمائی ہوئی ہے۔
حکومت برطانیہ کے احسانات اصلہ اور عطیہ جات کو تفصیل سے لکھ کر آخر میں لکھتے ہیں کہ: ’’ہم اپنی معزز گورنمنٹ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس گورنمنٹ کے اسی طرح مخلص اور خیرخواہ ہیں۔ جس طرح ہمارے بزرگ تھے۔ ہمارے ہاتھ میں بجز دعاء کے اور کیا ہے۔ سو ہم دعاء کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اس گورنمنٹ کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اس کے دشمن کو ذلت کے ساتھ پسپا کرے۔ خداتعالیٰ نے ہم پر محسن گورنمنٹ کا شکر ایسا ہی فرض کیا ہے۔ جیسا کہ اس کا شکر کرنا، سو اگر ہم اس محسن گورنمنٹ کا شکرادا نہ کریں یا کوئی شر اپنے ارادہ میں رکھیں تو ہم نے خداتعالیٰ کا بھی شکر ادا نہ کیا۔ کیونکہ خداتعالیٰ کا شکر اور کسی محسن گورنمنٹ کا شکر جس کا خداتعالیٰ اپنے بندوں کو بطور نعمت کے عطاء کرے۔ درحقیقت یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ایک کے چھوڑے سے دوسرے کا چھوڑنا لازم آجاتا ہے۔ بعض احمق اور نادان سوال کرتے ہیں کہ اس