قارئین نے ملاحظہ کر لیا کہ قرآن کریم، حدیث شریف، لغت عربی، اجماع امت اور امت مسلمہ کا ہر علمی طبقہ عام اس سے وہ حضرات محدثینؒ ہوں یا فقہائ، حضرات متکلمین ہوں یا صوفیائؒ وغیرہم۔ سب کے سب اس پر متفق ہیں۔ بلکہ خود مرزاقادیانی بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس مقام میں متوفیک سے یہ مراد نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے۔ جیسا کہ باطل پرست مدعی ہیں۔ خود مرزاقادیانی کا اقرار ہے کہ: ’’ایک نئے معنی اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے۔ خداتعالیٰ مسلمانوں کو اس سے بچاوے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۴۵، خزائن ج۳ ص۵۰۱)
ہماری بھی یہی دعاء ہے اور اس پر صاد ہے۔ آمین!
قادیانی، لاہوری مرزائیوںکو مسکت جواب اور ان پر اتمام حجت
مرزائیوں کو ممات مسیح علیہ السلام کی تردید میں اہل اسلام اپنے اپنے انداز میں جوابات دیتے رہتے ہیں۔ وہ بھی بجا ہیں۔ لیکن راقم اثیم بجائے لمبا راستہ اختیار کرنے کے ممات مسیح علیہ السلام پر پیش کردہ جملہ نقلی وعقلی استدلال کا قطع مسافت کے لئے یہ حل آسان سمجھتا ہے اور مختصر سی تمہید کے بعد خود مرزاقادیانی کے قلم سے نکلے ہوئے یہ حوالے بہتر حل قرار دیتا ہے۔
انہیں کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات ان کی
انہیں کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی
تمہید
مرزاغلام احمد قادیانی جب تک دائرہ اسلام میں داخل اور مسلمان تھے اور جب تک وہ حکیم نورالدین بھیروی کے کافرانہ چنگل میں پوری طرح نہیں پھنسے تھے اور جب تک حکیم نورالدین کے غلط نسخوں سے مرزاقادیانی کا مراق اور مالیخولیا عروج تک نہیں پہنچا تھا اور جب تک محمدی بیگم کے عشق کا مکمل بھوت ان پر سوار نہیں ہوا تھا اور جب تک ان عوارضات کی وجہ سے ان کا دماغ ماؤف نہیں ہوا تھا تو وہ قرآن وحدیث اور اجماع کی قدر کے گیت گاتے تھے۔ مگر جب کروٹ بدلی تو ان میں سے کوئی چیز بھی نعوذ باﷲ منہ قابل قدر نہ رہی۔ بلکہ الٹا ان کا مذاق اڑانے لگے اور بھانڈوں کی طرح مسخرہ پر اتر آئے۔
گریباں ہے نہ دامن ہے برہنہ آ برہنہ پا
جنون عشق کے مارے بھی کیا دیوانہ وار آئے