تقریباً تیرہ کروڑ کی آس پاس کی مسلمان حکومتوں کی موجودگی میں جنہوں نے بے غیرتی کا مظاہرہ کیا اور مصلحت کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور مظلوم مسلمانوں پر بارش کی طرح گولیوں کی بوچھاڑ ہورہی ہے۔
ان دو خوابوں میں راقم اثیم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ خاصا عرصہ ہوا کہ راقم اثیم نے حیات حضرت مسیح علیہ السلام پر ایک مسودہ کی کچھ ترتیب بھی دی تھی۔ گو وہ مسودہ مکمل تو نہ تھا۔ مگر خاصا علمی مواد اس میں جمع تھا۔ اس کی خاصی تلاش کی مگر مسودات کے جنگلات میں بسیار تلاش کے بعد بھی ناکامی ہوئی۔ اس مد کے کچھ حوالے مختلف شذرات پر ملے اور کچھ مزید حوالے جمع کر کے اب اس صورت میں حضرات قارئین کی خدمت میں یہ ’’توضیح المرام‘‘ پیش کی جارہی ہے۔ علمی، استدلالی اور حوالوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے حضرات کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا جائے گا اور اصلاح میں کوئی کوتاہی نہ کی جائے گی۔ انشاء اﷲ العزیز!
اﷲتعالیٰ سے مخلصانہ دعاء ہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے توحید وسنت پر قائم رہنے کی توفیق بخشے اور شرک وبدعت اور بری رسموں سے بچائے اور راقم اثیم کا اور ہر مسلمان کا خاتمہ بالایمان کرے۔ آمین ثم آمین! وصلی اﷲ تعالیٰ وسلم علیٰ رسولہ خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وازواجہ واصحابہ وذریاتہ واتباعہ الیٰ یوم الدین‘‘
العبد العاجز ابو الزاہد محمد سرفراز، یکم؍ محرم الحرام ۱۴۱۷ھ، ۱۹؍مئی ۱۹۹۶ء
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم وعلی اصحابہ وآلہ واتباعہ الیٰ یوم الدین۰ اما بعد!
مذہب اسلام کی بنیاد محکم اور مضبوط عقائد، عمدہ اور فطری اعمال وعبادات، بہترین اخلاق وکردار اور صاف اور ستھرے معاملات پر قائم ہے اور ان سب میں اوّلیت عقائد کو حاصل ہے۔ جب تک عقیدہ درست نہ ہو کوئی بھی زبانی، بدنی اور مالی عبادت اور عمل اﷲ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا اور تصدیق وایمان کے بغیر ہر قسم کی محنت اور مشقت بالکل رائیگاں ہوتی اور بے کار جاتی ہے۔ عقائد میں توحید ورسالت اور قیامت کے عقیدہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور دیگر عقائد کو تسلیم کئے بغیر بھی کوئی چارہ اور چھٹکارا نہیں۔ الغرض ان تمام عقائد اور اصول کو اور ان سب احکام وفروع کو درجہ بدرجہ تسلیم کرنا ضروری ہے۔ جن کو ضروریات دین سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جن کا ثبوت ادّلہ قطعیہ سے ہے اور قطعی ادّلہ تین ہیں۔ نص قرآنی، حدیث متواتر اور اجماع امت۔