جس طرح نفس قیامت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اسی طرح اشراط الساعۃ اور قیامت کی ان علامات اور نشانیوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ جن کا ثبوت ان ادّلہ مذکورہ سے ہو۔ قیامت کے آنے کی بے شمار نشانیاں ہیں۔ جن میں سے بعض یہ ہیں۔
حضرت حذیفہ بن اسید الغفاریؓ (المتوفی ۴۲ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’الطلع النبیﷺ علینا ونحن نتذاکر فقال ما تذکرون؟ قالوا نذکر الساعۃ قال انہا لن تقوم حتیٰ ترون قبلہا عشر آیات فذکر الدخان والدجال والدابۃ وطلوع الشمس من مغربہا ونزول عیسیٰ بن مریم ویاجوج وماجوج وثلاثۃ خسوف خسف بالمشرق وخسف بالمغرب وخسف بجزیرۃ العرب وآخر ذلک نار تخرج من الیمن تطرد الناس الیٰ محشر (مسلم ج۲ ص۳۹۳، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، ابوداؤد ج۲ ص۲۳۶، ترمذی ج۲ ص۴۱، ابن ماجہ ص۳۰۲) واللفظ لہ‘‘ {آنحضرتﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم آپس میں مذاکرہ اور گفتگو کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا گفتگو کر رہے ہو؟ اہل مجلس نے کہا کہ ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ قیامت ہر گز قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہوں۔ آپ نے دھوئیں، دجال، دابتہ الارض، سورج کے مغرب کی طرف سے طلوع ہونے، حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نزول، اور یاجوج وماجوج کے خروج کا ذکر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تین مقامات زمین میں دھنس جائیںگے۔ ایک خسف مشرق میں، دوسرا مغرب میں اور تیسرا جزیرۃ العرب میں ہوگا۔ (غالباً اسی جگہ جس مقام پر اب امریکہ کی فوج ہے) اور آخر میں یمن سے آگ نکلے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف دھکیلتی جائے گی۔}
اسی مضمون کی مرفوع حدیث حضرت واثلہؓ بن الاسقع المتوفی ۸۳ھ سے بھی مروی ہے۔ جس میں نزول عیسیٰ کی تصریح موجود ہے۔ (مستدرک ج۴ ص۴۲۸، قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)
ہمارا مقصد اس وقت قیامت کی بقیہ نشانیوں کا بیان کرنا نہیں ان میں سے ہر ایک نشانی حق ہے۔ جس کا وقوع ضروری ہے۔ اس وقت ہمارا مدعا صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ جسم کے ساتھ رفع الیٰ السماء ان کی آسمان پر حیات اور قیامت سے قبل ان کا نزول من السماء ہے اور اس کا ثبوت قرآن کریم، احادیث متواترہ اور امت مسلمہ کے اتفاق واجماع سے ہے۔ جن میں ہر ایک دلیل اصول کے لحاظ سے اپنی جگہ قطعی اور یقینی ہے۔ جس کا انکار یا تاویل، کفر، زندقہ اور