دو منزلہ تھی اور اس میں چار اضلاع کے قیدی تھے اور سبھی ہی علماء طلباء تاجر اور پڑھے لکھے لوگ تھے۔ جو دیندار تھے۔ اضلاع یہ ہیں: ضلع گوجرانوالہ، ضلع سیالکوٹ، ضلع سرگودھا اور ضلع کیمل پور۔ (فی الحال ضلع اٹک) بحمد اﷲ تعالیٰ جیل میں بھی پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری تھا۔ راقم اثیم قرآن کریم کا ترجمہ، مؤطا امام مالکؒ، شرح نخبۃ الفکر اور حجۃ اﷲ البالغہ وغیرہ کتابیں پڑھاتا رہا۔ دیگر حضرات علماء کرام بھی اپنے اپنے ذوق کے اسباق پڑھتے پڑھاتے رہے۔ آخر میں راقم اثیم کمرہ میں اکیلا رہتا تھا۔ کیونکہ باقی ساتھی رہا ہوچکے تھے اور میں قدرے بڑا مجرم تھا۔ تقریباً دس ماہ جیل میں رہا اور ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق کی تردید میں ’’بجواب دو اسلام صرف ایک اسلام‘‘ وہاں ملتان جیل ہی میں راقم اثیم نے لکھی تھی۔
خواب نمبر۱
۱۳۷۳ھ، ۱۹۵۳ء میں تقریباً سحری کا وقت تھا کہ خواب میں مجھ سے کسی نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آرہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہاں آرہے ہیں؟ تو جواب ملا کہ یہاں تمہارے پاس تشریف لائیںگے۔ میں خوش بھی ہوا کہ حضرت کی ملاقات کا شرف حاصل ہوگا اور کچھ پریشانی بھی ہوئی کہ میں تو قیدی ہوں۔ حضرت کو بٹھاؤں گا کہاں اور کھلاؤں پلاؤں گا کیا؟ پھر خواب ہی میں یہ خیال آیا کہ راقم کے نیچے جو دری، نمدہ اور چادر ہے یہ پاک ہیں۔ ان پر بٹھاؤں گا۔ خواب میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ ان کا ایک خادم تشریف لائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا سر مبارک ننگا تھا۔ چہرہ اقدس سرخ اور داڑھی مبارک سیاہ تھی۔ لمبا سفید عربی طرز کا کرتا زیب تن تھا اور نظر نہیں آتا تھا۔ مگر محسوس یہ ہوتا تھا کہ نیچے حضرت نے جانگیہ اور نیکر پہنی ہوئی ہے اور آپ کے خادم کا لباس سفید تھا۔ فٹ کرتا اور قدرے تنگ شلوار اور سر پر سفید اور اوپر کو ابھری ہوئی نوک دار ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ راقم اثیم نے اپنے بستر جو زمین پر بچھا ہوا تھا دونوں بزرگوں کو بٹھلایا۔ نہایت ہی عقیدت مندانہ طریقہ سے علیک سلیک کے بعد راقم اثیم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے مؤدبانہ طور پر کہا کہ حضرت! میں قیدی ہوں اور کوئی خدمت نہیں کر سکتا۔ صرف قہوہ پلا سکتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا لاؤ۔ میں خواب ہی میں فوراً تنور پر پہنچا۔ جہاں روٹیاں پکتی تھیں۔ میں نے اس تنور پر گھڑا رکھا اور اس میں پانی چائے کی پتی اور کھانڈ ڈالی اور تنور خوب گرم تھا۔ جلدی ہی میں قہوہ تیار ہو گیا۔ راقم اثیم خوشی خوشی لے کر کمرہ میں پہنچا اور قہوہ دو پیالیوں میں ڈالا اور یوں محسوس ہوا کہ اس میں دودھ بھی پڑا ہوا ہے۔ بڑی خوشی ہوئی اور دونوں بزرگوں نے چائے پی، پھر جلدی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھ کھڑے