مولانا محمد سیف الرحمن صاحب دام مجدہم استاذ حدیث ومدرس مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ جو حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداﷲ درخواستیؒ کے داماد، بھی تھے اور حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب دام مجدہم یکے از ارکان روضہ الاطفال کراچی بھی تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ شام کی حکومت نے پابندی اٹھالی ہے اور الشیخ عبدالفتاح ابوغدۃ اب حلب ملک شام میں رہائش پذیر ہیں۔ التصریح بما تواتر فی نزول المسیح علیہ السلام میں چالیس مرفوع حدیثیں حضرات ائمہ حدیث کی تصریح کے ساتھ صحیح اور حسن قسم کی جمع کی ہیں اور پینتیس حدیثیں ایسی جمع کی ہیں جن کو حضرات محدثین کرامؒ نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ان پر سکوت اختیار کیا ہے جو اصول حدیث کے لحاظ سے قابل برداشت ہیں۔ ان کے علاوہ الشیخ عبدالفتاح ابوغدۃ نے مزید دس احادیث کی بصورت تتمہ واستدراک نشاندہی کی ہے جو صاحب التصریح سے چھوٹ گئی تھیں۔ مزید برآں التصریح میں حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے آثار اور موقوفات بھی ذکر کئے ہیں۔ جن کی تعداد چھبیس ہے۔ التصریح میں کل مرفوع اور موقوف روایات ایک سو ایک ہیں اور الشیخ عبدالفتاح ابوغدۃ نے مزید دس آثار کی نشاندہی کی ہے۔ جو حضرت شاہ صاحبؒ سے باوجود وسعت نظری اور قوت حافظہ کے چھوٹ گئے تھے اور اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ کے دور میں کتابیں بہت نایاب ہوتی تھیں۔ بعد میں کتابوں کی طباعت واشاعت میں فراوانی ہوگئی۔ التصریح سے متوسط قسم کے عربی دان بھی بخوبی استفادہ کر سکتے ہیں اور اس مسئلہ پر کسی اورکتاب کی احادیث کی تلاش میں ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت عمدہ اور جامع کتاب ہے۔ علماء اور طلباء ضرور اس کی طرف رجوع کریں۔
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
التحدیث بالنعمۃ
اﷲتعالیٰ نے راقم اثیم پر جو احسانات اور انعامات کئے ہیں۔ راقم اثیم قطعاً ویقینا اپنے آپ کو ان کا اہل نہیں سمجھتا۔ یہ صرف اور صرف منعم حقیقی کا فضل وکرم ہے کہ حضرات علماء اور طلباء اور خواص وعوام اس ناچیز سے محبت بھی کرتے اور قدردانی بھی کرتے ہیں۔ ڈھول اندر سے تو خالی ہوتا ہے۔ مگر اس کی آواز دور دور تک جاتی ہے۔ یہی حال میرا ہے کہ علم وعمل، تقویٰ اور ورع سے اندر خالی ہے اور حقیقت اس کے سوا نہیں کہ من آنم کہ من دانم! راقم اثیم تحریک ختم نبوت کے دور میں پہلے گوجرانوالہ جیل میں پھر نیو سنٹرل جیل ملتان میں کمرہ نمبر۲ میں مقید رہا۔ ہماری بارک نمبر۶