حج، زکوٰۃ وغیرہ اہم مسائل کا اثبات تقریباً محال ہے۔ کیونکہ نماز جیسی اہم عبادت میں بھی بیسیوں اختلاف ہیں۔ تو مرزاقادیانی کے اصول سے ثابت ہوا کہ نماز کا حکم بھی اسلام نے کبھی نہیں دیا۔ اگر دیا ہوتا تو اس میں اختلاف نہ ہوتا۔ (عیاذاً باﷲ) مرزاقادیانی نے ایک ایسا قاعدہ اور ایٹم بم ایجاد کیا کہ اسلام کا ایک ایک حکم ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔ کیا خوب؟
کاٹنا مقصود ہے جس سے شجر اسلام کا
قادیاں کے لندنی ہاتھوں میں وہ آری بھی دیکھ
خیر یہ تو احادیث کا اختلاف تھا۔ اگر مرزاقادیانی قرآن کریم کی طرف توجہ کرتے تو ایسے اختلاف کی وجہ سے خدا جانے کیا وہ فتویٰ صادر فرماتے۔ صرف ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ہی دیکھ لیجئے۔ کہیں ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا گیا۔ ’’ثم بعثنا من بعدہم موسیٰ بآیاتنا الیٰ فرعون وملائہ (اعراف:۱۰۳)‘‘ اور کہیں ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو صرف قوم فرعون کی طرف بھیجا۔ ’’واذ نادیٰ ربک موسیٰ ان ئت القوم الظلمین قوم فرعون (الشعرائ:۱۰،۱۱)‘‘ اور کہیں ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو انہی کی قوم کی ہدایت کے لئے بھیجا۔ ’’ولقد ارسلنا موسیٰ بایاتنا ان اخرج قومک من الظلمت الیٰ النور (ابراہیم:۵)‘‘ اور کہیں ارشاد ہوتا ہے۔ موسیٰ اور ہارون دونوں کو بھیجا۔ ’’فاتیٰہ فقولا انا رسولا ربک (ابراہیم:۵)‘‘ اور کہیں آتا ہے کہ صرف موسیٰ کو بھیجا۔ ’’واذ نادیٰ ربک موسیٰ ان ئت القوم الظلمین (الشعرائ:۱۰)‘‘ اور کہیں ارشاد ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلے جادو گروں کو کہا۔ ڈالو جو ڈالنا ہے۔ ’’قال لہم موسیٰ القوما انتم ملقون (یونس:۸۰)‘‘ اور کہیں آتا ہے کہ جادوگروں نے پہلے یہ تحریک پیش کی تھی۔ ’’قالوا یموسیٰ اما ان تلقی واما ان نکون نحن الملقین (اعراف:۱۱۵)‘‘ اور کہیں آتا ہے کہ پھر ہم نے دوسروں کو ڈبودیا۔ ’’ثم اغرقنا لاٰخرین (الشعرائ:۶۶)‘‘ اور کہیں آتا ہے کہ ہم نے فرعون اور اس کے لشکر کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ ’’فاخذناہ وجنودہ فنبذناہم فی الیم (القصص:۴۰)‘‘ اور اس کی نظیریں اور بھی قرآن کریم میں بکثرت ہیں تو کیا کسی مسلمان کو اس کی گنجائش ہے کہ وہ قوم فرعون اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ اور قصہ کا ہی انکار کردے