مرزاقادیانی کا مرکزی اعتراض یہ ہے کہ چونکہ روایات میں اختلاف ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اصل واقعہ ہی پیش نہیں آیا۔ لیکن راقم الحروف کہتا ہے کہ اگر مرزاقادیانی کے اس قاعدہ کو سامنے رکھا جائے تو اسلام کے اصول اور بنیادی مسائل کا ثابت ہونا بھی محال ہے۔ مثال کے طور پر آنحضرتﷺ کی بعثت لیجئے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ کی عمر مبارک چالیس سال کی تھی کہ آپ کو نبوت ملی۔ (بخاری ج۱ ص۵۰۲، باب صفۃ النبیﷺ)
اور ایک روایت میں ہے کہ چالیس سال چھ مہینے اور آٹھ دن کے بعد ملی۔
(تاریخ الامم الاسلامی محمد خضری ج۱ ص۱۰۴)
اور بعض روایات میں ایک دن کی زیادتی اور بعض میں دس دن کی اور بعض میں دو مہینے کی اور بعض میں تین سال کی اور کسی میں پانچ سال کی زیادتی مذکور ہے۔ (افادۃ الافہام ج۲ ص۲۲۳)
یا مثال کے طور پر آپ کی ہجرت کو لے لیجئے۔ ایک روایت آتی ہے کہ نبوت کے بعد تیرھویں سال ہجرت واقع ہوئی۔
(بخاری ج۱ ص۵۵۲، باب ہجرت النبیﷺ، مسلم ج۲ ص۲۶۰، باب قدر عمرہﷺ واقامۃ بمکۃ والمدینۃ)
اور دوسری جگہ روایت میں آتا ہے کہ بعثت کے بعد دس سال گذرے تھے کہ ہجرت ہوئی۔ (بخاری ج۱ ص۵۰۲، باب صفۃ النبیﷺ، مسلم ج۲ ص۲۶۰، باب قدر عمرہﷺ واقامۃ بمکۃ والمدینۃ)
یا مثال کے طور پر آپ کی وفات کو لیجئے۔ ایک روایت آتی ہے کہ پینسٹھ سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ (مسلم ج۲ ص۲۶۱، باب قدر عمرہﷺ واقامۃ بمکۃ والمدینۃ، ترمذی ج۲ ص۲۰۶، باب ماجاء فی بین النبیﷺ وابن کم کاز حسین مات)
اور ایک روایت میں تریسٹھ کا ذکر ہے۔ (مسلم ج۲ ص۲۶۰، باب قدر عمرہﷺ واقامۃ بمکۃ والمدینۃ، ترمذی ج۲ ص۲۰۳، باب ماجاء فی البعث النبیﷺ وابن کم کان حسین بعث)
اور ایک روایت آتی ہے کہ آپ کی ساٹھ سال عمر تھی کہ آپ کی وفات ہوئی۔
(مؤطا امام مالک ص۳۶۸)
توکیا ان اختلافات کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ العیاذ باﷲ! نہ تو آنحضرتﷺ کی بعثت ہوئی اور نہ ہجرت اور نہ ہی آپ کی وفات ہوئی۔ وعلیٰ ہذا القیاس!
مرزاقادیانی کے اس قاعدہ اور ان جرحی سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نماز، روزہ،