اور دلیل مرزاقادیانی کی پیش کرے کہ چونکہ واقعہ میں اختلاف ہے۔ کہیں کوئی چیز بیان سے چھوٹ گئی ہے اور کہیں دوسری جگہ کوئی اور چیز رہ گئی ہے۔ مگر حاشاو کلاکہ کسی مسلمان کے دل پر اس اختلاف کا کچھ بھی اثر ہو۔ ادنیٰ تأمل سے یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ شارع کو واقعات نگاری اور کہانی بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا کہ جب بیان کی جائے پوری بیان کی جائے۔ بلکہ وہاں ہر بیان میں ایک مقصود خاص پیش نظر ہوتا ہے۔ پھر متعدد بیانوں سے پورا قصہ بھی معلوم ہو جایا کرتا ہے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں متعدد اور متفرق امور مربوط اور مرتب کئے جاسکتے ہیں۔ معراج میں بھی ممکن ہے کہ خداتعالیٰ نے کسی مصلحت سے چھت کھول کر حضرتؐ کے مکان میں فرشتوں کو اتارا ہو اور پھر چھت کو ملادیا ہو۔ جس سے ظاہر ایک مصلحت یہ بھی ہو کہ اجسام کے خرق والتیام کا پہلے ہی سے حضرتؐ کو مشاہدہ ہو جائے اور شق صدر کے وقت کسی قسم کا تردد نہ ہو اور آسمانوں کے خرق والتیام کا استبعاد بھی جاتا رہے۔ کیا یہ محال ہے کہ فرشتوں نے حضرتؐ کو گھر سے اٹھا کر مسجد میں اس غرض سے لایا ہو کہ معراج کی ابتداء اس متبرک مقام سے ہو اور رات کا وقت ہونے کی وجہ سے حضرتؐ پر غنودگی طاری ہوگئی ہو اور پھر وقت مقرر پر آپؐ کو بیدار کر کے جہاں تک منظور تھا لے جایا گیا ہو اور قبل بعثت کے الفاظ شریک راوی کے علاوہ اور کسی نے پیش نہیں کئے اور جمہور نے ان کی تغلیط بیان کر دی ہے اور اس کے قرائن بھی موجود ہیں کہ قبل ہجرت کے جملہ کو راوی نے غلطی سے قبل بعثت سے تعبیر کر دیا ہے۔ باقی خواب اور بیداری کا واقعہ بھی بڑی آسانی سے طے ہوسکتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے جسمانی معراج سے قبل آپ کو بذریعہ خواب سارا واقعہ بتلا دیا ہو۔ جیسے ہجرت سے پہلے خواب میں مقام ہجرت بتلایا گیا کہ وہاں کثرت سے درخت ہوںگے۔ (بخاری ج۱ ص۵۵۱، باب ہجرت النبیﷺ) یا جیسے حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح سے پہلے ہی ان کے ساتھ نکاح کا تعلق بذریعہ خواب بتلایا گیا۔ (مشکوٰۃ ص۵۷۳، باب مناقب ازواج النبیﷺ)
اسی طرح یہاں بھی ممکن ہے اور شیخ ابن عربیؒ کی عبارت سے یہ مسئلہ اور بھی واضح ہوجائے گا جو عنقریب بیان ہوگی۔ الغرض مرزاقادیانی کا یہ اعتراض بالکل قابل التفات نہیں اور علمی میدان میں اس کی حیثیت پر کاہ کی بھی نہیں ہے ؎
خزاں نہ تھی چمنستان دھر میں کوئی
خود اپنا ضعف نظر پردۂ بہار ہوا