حدیث میں آیا ہے کہ میں بیت اﷲ کے پاس خواب اور بیداری کے درمیان میں تھا اور تین فرشتے آئے اور ایک جانور بھی لایا گیا اور کسی میں براق کا کوئی ذکر نہیں اور کسی میں ہے کہ میں حطیم میں تھا۔ یا حجر میں لیٹا ہوا تھا اور کسی میں ہے کہ بعثت کے پہلے یہ واقعہ ہوا اور بغیر براق کے آسمان پر گئے اور آخر میں آنکھ کھل گئی اور ان پانچ واقعات میں لکھا ہے کہ معراج کے وقت پہلے پچاس نمازیں مقرر ہوئیں اور بعد تخفیف پانچ منظور کرائیں اور ترتیب رؤیت انبیاء میں بڑا اختلاف ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۹۳۲، خزائن ج۳ ص۶۱۳)
جواب… مرزاقادیانی نے نہایت لطیف پیرایہ میں حدیث سے ٹھٹھا۱؎ کیا ہے کہ طشت طلائی کیا ہوا؟ خدا جانے یہ کس خیال پر مبنی ہے۔ وہ طشت تو جناب رسول اﷲﷺ کو ہبہ تھوڑا ہی کیاگیا تھا۔ جس کی تلاش مرزاقادیانی کو ہے۔ وہ طشت جہاں سے لایا گیا تھا وہاں پہنچا دیا گیا ہوگا۔
۱؎ مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’اور ایک ایسا فرقہ بھی نکلا ہے جو آنحضرتﷺ کی سنن ماثورہ پر ٹھٹھا مارتا ہے اور ہنسی کرتا ہے اور تمام احادیث کو ردیات کا ذخیرہ سمجھتا ہے اور آنحضرتﷺ کو اتنی بھی عزت نہیں دیتا کہ وہ فہم قرآن میں دوسروں سے بڑھ کر ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۱۰، خزائن ج۲۳ ص۳۲۵) راقم الحروف کہتا ہے کہ اوّلا اس کا مصداق خود مرزاقادیانی اور ان کے امتی ہیں اور اس کے بعد دیگر منکرین حدیث۔ مرزاقادیانی کا حال تو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ اب امتیوں کا حال بھی ذرا سن لیجئے۔ جب مسلمان حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر زندہ ہونے کو پیش کرتے ہیں تو مرزائی دوست کہا کرتے ہیں کہ وہ وہاں کیا کھاتے اور کیا پیتے ہوںگے؟ وہاں پیشاب اور پاخانہ کہاں پھرتے ہوںگے؟ استنجا کہاں کرتے ہوںگے؟ کون سی نماز پڑھتے ہوںگے؟ اسرائیلی یا محمدی؟ اگر اسرائیلی نماز پڑھتے ہیں تو منسوخ شریعت پر کیسے عمل کرتے ہیں؟ اور اگر محمدی نماز پڑھتے ہیں تو وہ ان کو کس نے بتلائی؟ آنحضرتﷺ نے بتلائی تو وہ کب؟ اور اگر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتلائی۔ تو معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام پر بھی جدید وحی نازل ہوتی ہے۔ نیز وہ زکوٰۃ کس چیز کی اور کس کو دیتے ہوںگے؟ کس قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوںگے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس سے بڑھ کر احادیث صحیحہ اور متواترہ سے اور کیا ٹھٹھا اور ہنسی ہوسکتی ہے؟ مرزاقادیانی کا اپنا قول ان کے لئے حجت ہے ؎
جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے