خواب کے بارے میں اتنا ہنگامہ برپا کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوسکتا۔
۵… حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ مکہ مکرمہ سے ایک قافلہ بغرض تجارت شام کو گیا تھا اور وہ واپس آرہا تھا کہ آنحضرتﷺ نے براق پر سوار ہوکر جاتے وقت ان کو سلام کیا۔ انہوں نے آنحضرتﷺ کی آواز پہچان لی اور سن لی اور جب واپس مکہ آئے تو اس بات کی گواہی بھی دی۔ نیز آنحضرتﷺ نے مکہ مکرمہ واپس ہوکر اس قافلہ کی ایک ایک علامت بھی لوگوں کو بتائی تھی اور جب قافلہ آیا تو انہوں نے اس کی تائید بھی کی تھی۔ اسی حدیث میں یہ ناقابل فراموش مضمون بھی ہے۔
’’فاتانی ابوبکرؓ فقال یا رسول اﷲ این کنت اللیلۃ قد التمتک فی مکانک (شفا ص۸۷، تفسیر ابن کثیر ج۵ ص۱۲۶، خصائص الکبریٰ ج۱ ص۱۵)‘‘ {کہ صبح کے وقت حضرت ابوبکرؓ میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ حضرت آپ رات کہاں تھے؟ میں نے آپ کو آپ کے مکان پر تلاش بھی کیا۔}
اس کے بعد آپ نے معراج کا مفصل واقعہ بیان فرمایا۔ امام بیہقی فرماتے ہیں: ’’ہذا اسناد صحیح‘‘ کہ اس کی سند صحیح ہے۔ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ قافلہ والوں کو پہچان کر آپ کا سلام کہنا اور ان کا آپ کی آواز کو پہچاننا اور پھر مکہ مکرمہ واپس ہوکر قافلہ کی علامتیں بتلانا اور ان کا اہل مکہ سے اس کی شہادت دینا۔ نیز حضرت ابوبکر صدیقؓ کا رات کے وقت آپ کو مکان پر تلاش کرنا اور آپ کا وہاں موجود نہ رہنا ان میں سے ایک ایک بات اس کو متعین کر رہی ہے کہ یہ واقعہ خواب اور کشف کا ہرگز نہ تھا۔ بلکہ جسم عنصری کے ساتھ حالت بیداری کا تھا۔
خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم کی پیش کردہ آیات اور مذکورۃ الصدر صحیح اور متواتر احادیث اور اجماع صحابہ کرامؓ اور سلف وخلف کا اتفاق اور خود مرزاقادیانی کی تحریرات اس بات پر شاہد عدل ہیں کہ آنحضرتﷺ کی معراج کا واقعہ کوئی روحانی اور کشفی امر نہ تھا۔ بلکہ حالت بیداری میں جسم مبارک کا ایک بیّن اور روشن واقعہ تھا اور یہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ جس پر نسلاً بعد نسلٍ اور کابراً بعد کابرٍ تمام مسلمان متفق رہے ہیں اور کوئی فرسودہ نیا اور پرانا فلسفہ ان کے ذہن سے اس کو نہیں نکال سکا۔
ایک طرف یہ دلائل ملاحظہ کریں اور دوسری طرف زمانہ حال کے منکر حدیث چوہدری