غلام احمد صاحب پرویز کا عقیدہ اور نظریہ بھی ملاحظہ کریں۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’اگر آج سائنس کی کوئی ایجاد اس کا امکان بھی پیدا کر دے کہ کوئی شخص روشنی کی رفتار سے مریخ یا چاند کے کروں تک پہنچ جائے اور پھر چند ثانیوں میں واپس بھی لوٹ آئے تو میں پھر بھی حضورﷺ کے معراج جسمانی کو نہیں تسلیم کروںگا۔ اس لئے کہ میرے دعویٰ کی بنیاد ہی دوسری ہے اور وہ یہ ہے کہ جسمانی معراج سے یہ تصور کرنا لازم آتا ہے کہ خدا کسی خاص مقام پر موجود ہے اور میرے نزدیک خدا کے متعلق یہ تصور قرآن کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہے۔‘‘ (معارف القرآن ج۲ ص۴۴)
دیکھا آپ نے کہ آنحضرتﷺ کے اسراء اور معراج جسمانی کا عقیدہ جو قرآن کریم، متواتر درجہ کی حدیثوں اور امت کے اجماع واتفاق سے ثابت ہے۔ پرویز صاحب اس کو تسلیم کرنے کے لئے سرے سے آمادہ ہی نہیں ہیں۔ پرویز صاحب ہی بتائیں کہ کیا قرآن کریم میں ’’الرحمن علی العرش استویٰ‘‘ (یہ الگ امر ہے کہ جیسا اس کی شان کے مناسب اور لائق استوار ہے وہی ہوگا) ’’والیہ یصعد الکلم الطیب‘‘ اور ’’ورافعک الیّ‘‘ اور ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ وغیرہ وغیرہ آیات موجود ہیں؟ اور کیا ان سے یہ تصور لازم نہیں آتاکہ خداتعالیٰ کسی مخصوص مقام میں ہے؟ یا آپ ان کے بھی منکر ہیں؟ اور اگر ان کی کوئی صحیح تاویل آپ کے ذہن نارسا میں موجود ہے تو معراج کے واقعہ میں آپ کوکیوں سانپ سونگھ جاتا ہے؟ چلئے اگر آپ کو معراج کا واقعہ سمجھ نہیں آتا اور آپ کا مغربیت زدہ اور ماؤف ذہن اس کو قبول نہیں کرتا تو واقعہ اسراء جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ایک ہی رات میں پیش آیا تھا اس کو تو تسلیم کرلیتے۔ یا آپ کے نزدیک اس سے بھی مسجد اقصیٰ اﷲتعالیٰ کا رہائشی مکان ثابت ہوتا ہے؟ العیاذ باﷲ!
سچ کہاگیا ہے کہ خوئے بدرا بہانہ ہائے بسیار! اصل بات تو صرف اتنی ہے کہ جملہ منکرین حدیث معراج وغیرہ معجزات کے قائل نہیں ہیں۔ مگر پہلے جسد عنصری کے ساتھ آسمان پر جانا خلاف عقل سمجھا جاتا تھا۔ اس پر ایک عرصہ تک ان کی طرف سے یہ دلیل پیش ہوتی رہی۔ مگر آج جبکہ سائنس کی نئی نئی ایجادات نے اس کا امکان ثابت کر دیا کہ مریخ اور چاند تک کا سفر ممکن ہے اور اب تو صرف ممکن ہی نہیں۔ بلکہ روسی راکٹ نے چاند میں پہنچ کر اس میں جھنڈا نصب کر کے اس کا بالفعل وقوع بھی ثابت کر دیا ہے اور اب مشتری اور چاند تک کے سفر کی تیاریوں کے لئے سیٹیں ریزرو کرائی جارہی ہیں۔ تو پرویز صاحب کو معراج جسمانی کے رد کرنے کی اور دلیل سوجھی،