بہتان باندھا ہے۔ وہ تو ایک خواب تھا۔ حضرت عائشہؓ کی ایک روایت ہم پہلے عرض کر چکے ہیں اور دوسری روایت یہ ہے اور یہ دونوں اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں۔
۳… حضرت ام ہانیؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ نے واقعہ معراج جب اہل مکہ کو سنایا تو مطعم نے کہا کہ اب تک آپ کا معاملہ ٹھیک تھا۔ سوائے اس بات کے جواب کہہ رہے ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم جھوٹے ہو۔ (العیاذ باﷲ) ہم تو اگر بڑی تیزی سے بھی اونٹوں کو چلائیں تو کہیں دو مہینوں کے بعد بیت المقدس سے واپس آسکتے ہیں اور تم کہتے ہو کہ میں ایک ہی رات میں جاکر واپس آگیا۔ لات اور عزیٰ کی قسم ہے کہ میں تو ہرگز نہ مانوں گا۔
(تفسیر ابن کثیر ج۵ ص۱۳۹، فتح الباری ج۷ ص۱۵۱، البدایہ والنہایہ ج۳ ص۱۱، خصائص الکبریٰ ج۱ ص۱۷۸)
اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ مطعم وغیرہ کو یہی سمجھایا گیا تھا کہ آپ کو حالت بیداری میں معراج کرائی گئی ہے اور یہ چیز اس کی سمجھ میں نہیں آسکتی تھی۔ اس لئے انہوں نے آپ کو معاذ اﷲ جھوٹا بھی کہا اور قسم کھا کر پرزور الفاظ میں مخالفت بھی کی۔
۴… حضرت عبداﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ بیت المقدس وغیرہ سے واپس تشریف لائے تو ام ہانیؓ کو فرمانے لگے۔ مجھے یقین ہوا کہ اس واقعہ میں لوگ میری ضرور تکذیب کریںگے۔ اسی خیال سے غمگین ہوکر بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے جب یہ واقعہ سنا تو آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ کیا آپ رات بیت المقدس جاکر صبح پھر ہم لوگوں میں واپس آگئے؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں۔ ابوجہل نے لوگوں کو بلایا اور آنحضرتﷺ سے کہنے لگا۔ ذرا ان کو بھی وہ واقعہ سنا دیں جو مجھ کو سنا رہے تھے۔ آپ نے وہ واقعہ سنایا۔ لوگوں نے کہا۔ کیا بیت المقدس سے آپ کی مراد ایلیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ یہ سنتے ہیں لوگوں کی یہ کیفیت ہوگئی کہ کوئی تالیاں بجانے لگا اور کسی نے تعجب سے سرپر ہاتھ رکھ لیا۔
(تفسیر ابن کثیر ج۵ ص۱۲۸، مسند احمد ج۱ ص۳۰۹، خصائص الکبریٰ ج۱ ص۱۶۰، بسند صحیح)
اس روایت کا ایک ایک لفظ پکار پکار کرکہہ رہا ہے کہ یہ واقعہ جسم عنصری اور بیداری کا تھا۔ اگر آنحضرتﷺ اس واقعہ کے بیان کرنے پر مامور نہ ہوتے تو شاید آپ کفار کی تکذیب کے ڈر سے (العیاذ باﷲ) اس کو بیان بھی نہ فرماتے اور اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو ابوجہل وغیرہ کو مجمع اکٹھا کرنے اور واقعہ سن کر تعجب کرنے اور تالیاں بجانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ کیونکہ