المقدس کی کچھ نشانیاں اور علامتیں پوچھیں۔ مجھے وہ نشانیاں معلوم نہ تھیں۔ مجھے اس وقت اتنی پریشانی لاحق ہوئی کہ زندگی بھر کبھی ایسی پریشانی لاحق نہ ہوئی تھی۔ اتنے میں حق تعالیٰ نے اپنے خاص فضل وکرم سے بیت المقدس کا نقشہ میرے سامنے پیش کر دیا۔ مخالف مجھ سے جو علامت پوچھتے جاتے ہیں۔ دیکھ کر بتلاتا جاتا۔ (بخاری ج۱ ص۵۴۸، باب حدیث الاسرائ، مسلم ج۱ ص۹۶، باب الاسراء برسول اﷲﷺ، صحیح ابو عوانہ ج۱ ص۱۳۱)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ مشرکین کو یہی بات ذہن نشین کرائی گئی تھی کہ آپ کو حالت بیداری میں معراج کرائی گئی ہے اور اس پر تعجب کرتے ہوئے مشرکین نے سوالات کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ اگر یہ معاملہ خواب یا کشف کا ہوتا تو مشرکین کو امتحان لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ بلکہ جو کچھ سنا تھا اس پر صاد کرتے اور اسی کو غنیمت سمجھ لیتے۔
۲… حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جس رات آنحضرتﷺ بیت المقدس جاکر واپس تشریف لائے۔ اسی کی صبح کو آپ نے وہ واقعہ لوگوں سے بیان فرمایا۔ جس سے بہت سے لوگ جو آنحضرتﷺ پر ایمان لاکر ہر طرح کی تصدیق کر چکے تھے مرتد ہوگئے۔ پھر کفار ابوبکرؓ کے پاس گئے اور کہنے لگے۔ کیا اب بھی آپ اپنے رفیق یعنی جناب نبی کریمﷺ کی تصدیق کرو گے۔ لیجئے وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ آج رات وہ بیت المقدس جاکر واپس بھی آگئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کیا واقعی حضرتؐ نے ایسا فرمایا ہے؟ وہ کہنے لگے ہاں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تو میں اس کو مانتا ہوں۔ لوگوں نے کہا اے ابوبکرؓ کیا تم اس کی تصدیق کرتے ہو کہ وہ ایک ہی رات میں بیت المقدس وغیرہ تک گئے اور صبح سے پہلے پھر واپس بھی آگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا ہاں! میں تو بیت المقدس سے دور کی باتوں کی تصدیق کرتا ہوں۔ یعنی جو صبح وشام آسمان کی خبریں بیان فرماتے ہیں۔ ان کو میں صحیح اور حق جانتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اسی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ کا نام صدیق رکھاگیا۔ (مستدرک ج۳ ص۶۳، قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)
اس روایت سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشرکین کے ذہن نشین یہی کرایا گیا تھا کہ حضرتؐ حالت بیداری میں بیت المقدس جاکر واپس تشریف لائے ہیں۔ جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا وہ کلمہ پڑھنے کے بعد بھی شکوک اور شبہات میں مبتلا ہوکر مرتد ہوگئے اور حضرت ابوبکرؓ کو صدیق کا لقب عطاء ہوا۔ اگر یہ معاملہ خواب کا ہوتا تو لوگوں کے مرتد ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی؟ اور خواب کا معاملہ کون سا بڑا کارنامہ تھاکہ حضرت ابوبکرؓ صدیق کہلائے؟ اور دوسری یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت عائشہؓ بھی معراج جسمانی کی قائل تھیں۔ ورنہ اس کی تصریح فرمادیتیں کہ یہ کفار نے