۴… نیز مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’مگر باوجودیکہ آنحضرتﷺ کی رفع جسمی کے بارے میں یعنی اس بارہ میں کہ وہ جسم کے ساتھ شب معراج میں آسمان کی طرف اٹھائے گئے تھے۔ تقریباً صحابہ کرامؓ کا یہی اعتقاد تھا۔ جیسا کہ مسیح کے اٹھائے جانے کی نسبت اس زمانہ کے لوگ اعتقاد رکھتے ہیں۔ یعنی جسم کے ساتھ اٹھائے جانا اور پھر جسم کے ساتھ اترنا۔ لیکن پھر بھی حضرت عائشہؓ اس بات کو تسلیم نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ وہ ایک رؤیا صالحہ تھی اور کسی نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کا نام نعوذ باﷲ ملحدہ یا ضالہ نہیں رکھا اور نہ اجماع کے برخلاف بات کرنے سے ان میں ٹوٹ کر پڑ گئے۔ اب اے منصفو! اے حق کے طالبو! اے خداتعالیٰ سے ڈرنے والے بندو! اس مقام میں ذرا ٹھہر جاؤ اور آہستگی اور تدبر سے خوب غور کرو کہ کیا ہمارے نبیﷺ کا آسمان پر جسم کے ساتھ چڑھ جانا اور پھر جسم کے ساتھ اترنا ایسا عقیدہ نہیں جس پر صدر اوّل کا اجماع تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۸۹، خزائن ج۳ ص۲۴۷)
ان تحریرات سے معلوم ہوا کہ فی نفسہ مرزاقادیانی کو بھی یقین تھا کہ آنحضرتﷺ کو حالت بیداری میں جسم عنصری کے ساتھ مکانی وزمانی دونوں طرح کی معراج کرائی گئی اور اسی عقیدہ پر تقریباً تمام صحابہ کرامؓ اور صدر اوّل کا اجماع تھا۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جماعت صحابہؓ کا اجماع کس پوزیشن کا ہوتا ہے؟ سو اس کا جواب خود مرزاقادیانی ہی سے سن لیجئے۔
۱… ’’اور صحابہ کرامؓ کا اجماع حجت ہے جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۴۷، خزائن ج۱۵ ص۴۶۱)
۲… ’’فان المراد من الاجماع اجماع الصحابہؓ! اجماع سے تو صحابہ کرامؓ کا اجماع ہی مراد ہے۔‘‘ (اتمام الحجہ ص۵، خزائن ج۸ ص۲۷۸)
۳… ’’یہ مسلم امر ہے کہ ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں ہوسکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۲۳۴، خزائن ج۲۱ ص۴۱۰)
مرزاقادیانی کی ان تحریرات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ کا اجماع حجت شرعی ہے۔ کیونکہ ان کا اجماع کبھی بھی گمراہی پر نہیں ہوسکتا۔ البتہ رائے صحابی حجت نہیں۔ ممکن ہے کوئی صاحب کہہ دے کہ اگرچہ صحابہ کرامؓ کا اپنی تحقیقات اور معلومات کی بناء پر آنحضرتﷺ کے