راقم کہتا ہے کہ کسی صحابی اور تابعی بلکہ کسی معتبر امام اور محدث سے صحیح سند اور صریح الفاظ کے ساتھ معراج جسمانی کا انکار ثابت نہیں ہوسکتا۔ ایڑی چوٹی کا بھی زور لگا کر اگر ثابت کیا جائے تو محال ہے۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو آئے میدان میں۔ ’’فھل من مبارز‘‘ جن اکابر سے اس کے خلاف منقول ہے۔ اس کا جواب عنقریب آتا ہے۔
جب یہ ثابت ہوگیا کہ جمہور سلف وخلف کا یہی مذہب ہے تو مرزاقادیانی کی بھی سنئے کہ: ’’سلف خلف کے لئے بطور وکیل کے ہیں اور ان کی شہادت آنے والی ذریت کو ماننا پڑتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۷۴، خزائن ج۳ ص۲۹۳)
اب ہم مرزاقادیانی کی اپنی تحریرات پیش کرتے ہیں۔ شاید کہ ان کے ماننے والوں کے لئے یہ عبارات سوہان روح ثابت ہوسکیں۔ ملاحظہ کریں مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ:
۱… ’’کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ قرآن کریم کی یہ آیت کہ ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ!معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے۔ جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا۔ ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے۔‘‘
(اشتہار چندہ منارۃ المسیح ص، ج، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۸۸)
۲… نیز مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’ان معراج نبینا کما کان مکانیا کذالک کان زمانیا ولا ینکرہ الا الذی فقد بصرہ وصار من العمین‘‘ ہمارے نبی کریمﷺ کی معراج جس طرح مکانی تھی اسی طرح زمانی بھی تھی اور اس کا انکار صرف وہی کرسکتا ہے جو دیدۂ بصیرت سے محروم ہو۔ (خطبہ الہامیہ ص۱۹۹، خزائن ج۱۶ ص۲۹۶)
۳… ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں کہ: ’’فقد عرج رسول اﷲﷺ بجسمہ الیٰ السماء وھو یقظان لا شک فیہ ولا ریب‘‘ جناب نبی کریمﷺ کے لئے حالت بیداری میں جسم عنصری کے ساتھ معراج واقع ہوئی۔ اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں ہے۔
(حمامتہ البشریٰ ص۳۴، خزائن ج۷ ص۲۱۹)
اس عبارت کے آگے حضرت عائشہؓ وغیرھا کا حوالہ اس کے خلاف بھی دیتے ہیں۔ ہم اس کی بحث آئندہ عرض کریںگے۔