مستدرک ج۳ ص۱۵۶۔ (۱۵)حضرت ابی بن کعبؓ۔ (۱۶)حضرت سمرۃ بن جندبؓ۔ (۱۷)حضرت صہیب بن سنانؓ۔ (۱۸)حضرت عبداﷲ بن عمرؓ۔ (۱۹)حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ۔ (۲۰)حضرت عبداﷲ بن اسعد بن زرارہؓ۔ (۲۱)حضرت عبدالرحمن بن قرط الشمالیؓ۔ (۲۲)حضرت عمر بن الخطابؓ۔ (۲۳)حضرت ابوایوب انصاریؓ۔ (۲۴)حضرت ابوالحمراؓ۔ (۲۵)حضرت ابوحبہ انصاریؓ۔ (۲۶)حضرت ابوایوب انصاریؓ۔ (۲۷)حضرت ابولیلی انصاریٰؓ۔ (۲۸)حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ۔ (۲۹)حضرت ام ہانیؓ۔ (۳۰)حضرت علیؓ۔ (۳۱)حضرت ابوامامہؓ۔ (۳۲)حضرت سہیل بن سعدؓ۔ (۳۳)حضرت ام سلمہؓ۔ ان تمام اکابر کی روایات خصائص الکبریٰ ج۱ ص۱۶۵تا۱۷۹ وغیرہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ زرقانی لکھتے ہیں۔ کہ جناب رسول اﷲﷺ کی معراج کی حدیثیں پینتالیس صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں۔
(زرقانی شرح مواہب ج۱ ص۳۵۵)
آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر صدی پر مجدد آنے کی حدیث صرف حضرت ابوہریرہؓ سے اور پھر فقط ابوداؤد میں آئی ہے۔ صحاح ستہ کی اور کسی کتاب میں نہیں ہے۔ جس پر مرزاقادیانی نے اپنی مجددیت کی تعمیر کی ہے اور معراج کی حدیث مختلف طریق سے کم ازکم ۴۵صحابہ کرامؓ سے مروی ہے اور پھر خاص کر حدیث کے طبقہ اولیٰ بخاری ومسلم وغیرہ میں جن کے متعلق مرزاقادیانی کا اقرار ہے کہ: ’’اگر میں بخاری اور مسلم کی صحت کا قائل نہ ہوتا تو میں اپنی تائید دعویٰ میں کیوں باربار ان کو پیش کرتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۸۴، خزائن ج۳ ص۵۸۲)
آپ نے ہمارے استدلال کا معیار تو دیکھ لیا۔ اب ذرا مرزاقادیانی کا معیار بھی ملاحظہ فرمائیے۔ مرزاقادیانی اپنے مسیح موعود ہونے پر یوں استدلال کرتے ہیں کہ: ’’کریم بخش روایت کرتے ہیں کہ گلا بشاہ مجذوب نے بیس برس پہلے مجھ کو یہ کہا تھا کہ عیسیٰ اب جوان ہوگیا ہے اور لدھیانہ میں آکر قرآن کی غلطیاں نکالے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۰۸، خزائن ج۳ ص۴۸۲)
گویا کریم بخش اور مجذوب گلاب شاہ کی بات تو مرزاقادیانی کے لئے قائل حجت ہے۔ مگر صحابہ کرامؓ کی ایک کثیر تعداد کی روایات قابل قبول نہیں۔ پھر مزید لطف یہ ہے کہ کریم بخش کی تعدیل بہت سے گواہوں سے کی گئی ہے۔ جن میں خیراتی، بوٹا، کنہیا لال، مراری لال، روشن لال اور کنشیامل وغیرہ ہیں اور ان کی گواہی یہ کہ کریم بخش کا کوئی جھوٹ کبھی ثابت نہ ہوا۔
آپ پڑھ چکے کہ حدیث معراج بہت سے صحابہ کرامؓ سے مروی ہے۔ اس کے تواتر