کرتی ہیں۔ (مسلم ج۱ ص۹۸، باب معنی قول اﷲ عزوجل ولقد رأہ نزلۃ اخریٰ) حضرت عائشہ صدیقہؓ کا یہ ارشاد یاد رکھنا آگے کام آئے گا۔ کیونکہ داشتہ بکار آید!
الحاصل سورۃ النجم کی مذکورہ آیات اور ان کی تفسیر میں پیش کردہ احادیث اور عقائد صحابہ کرامؓ سے یہ بات پوری طرح واضح اور ثابت ہوچکی ہے کہ آنحضرتﷺ کا سفر جسمانی اور بیداری میں تھا اور اسی واسطے مخالف آپ سے اس پر جھگڑا بھی کرتے تھے۔ اب آپ واقعہ معراج کا خلاصہ سن لیجئے جو متعدد احادیث کو سامنے رکھ کر انتخاب کیاگیا ہے۔
آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا کہ تین فرشتے آئے اور مجھے بیدار کر کے میرا پیٹ چاک کیاگیا اور میرا دل سونے کے تھال میں رکھ کر زمزم کے پانی سے خوب دھوکر ایمان اور حکمت سے پرکر کے سی دیا گیا۔ خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور جس کو براق کہتے ہیں۔ میری سواری کے لئے پیش کیاگیا۔ جہاں تک انسان کی نگاہ پہنچتی ہے۔ وہاں تک اس کا ایک ہی قدم ہوتا ہے۔ پھر مجھے بیت المقدس لے جایا گیا۔ براق اس حلقہ کے ساتھ باندھا گیا۔ جہاں دوسرے انبیاء عظام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور تمام پیغمبروں کو خداتعالیٰ نے وہاں میرے لئے جمع کر دیا تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق میں نے ان تمام کو امامت کرائی اور دو رکعت نماز پڑھائی۔ پھر وہاں سے پہلے آسمان تک گئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھولنے کو کہا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟ کہا جبرائیل ہے۔ دربان نے کہا ساتھ کون ہے؟ فرمایا حضرت محمدﷺ ہیں۔ پوچھا گیا کیا اﷲتعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ان کو بلایا گیا ہے؟۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہاں، پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے علیک سلیک اور ملاقات ہوئی۔ انہوں نے صالح نبی اور نیک بیٹے کے ساتھ تعبیر کرتے ہوئے آپ کی آؤ بھگت کی۔ وہاں سے دوسرے آسمان کے دروازہ سے سابق طریق سے اجازت طلب کرنے کے بعد پہنچے۔ وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہما السلام سے سلام کیا۔ انہوں نے نبی صالح اور الاخ الصالح سے خطاب کرتے ہوئے مرحبا کہی۔ پھر تیسرے آسمان کے دروازہ سے طریق مذکور کے ساتھ استیذان کیاگیا۔ وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو بطریق مذکور سلام کیا اور ان کی حسین ترین صورت دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے بھی بھائی صالح اور نبی صالح سے خوش آمدید کہی۔ پھر چوتھے آسمان پر اسی طرح اجازت کے بعد گئے۔ وہاں حضرت ادریس علیہ السلام تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا ان کو سلام کریں۔ میں نے سلام کیا۔ انہوں نے بھی دوسرے بزرگوں کی طرح مجھے مبارک باد دی۔ پھر وہاں سے پہلے کی