اطلاق بیداری میں آنکھوں سے دیکھنے پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک راعی کہتا ہے ؎
وکبر للرؤیا وھش فوادہ
وبشر قلبا کان جما بلالہ
(روح المعانی ج۱۵ ص۷)
شکاری نے شکار دیکھتے ہی خوشی کے مارے تکبیر کہی اور اس نے اپنے غمگین دل کو جس میں غم جمع ہوچکاتھا خوشخبری سنائی۔ اس شعر میں رؤیا کا اطلاق بیداری میں آنکھوں کے ساتھ دیکھنے پر ہوا ہے۔ متنبی بدر بن عمار کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے ؎
مضی اللیل والفضل الذی لک لا یمضی
ورؤیاک احلیٰ فی العیون من الغمض
(دیوان ص۱۵۷)
رات ختم ہوچکی اور تیری تعریف ابھی ختم نہ ہوئی اور آنکھوں کے ساتھ تجھے دیکھنا نیند سے بھی زیادہ میٹھا اور لذیذ ہے۔ اس شعر میں بھی لفظ رؤیا کا اطلاق آنکھوں کے ساتھ دیکھنے پر ہوا ہے۔ دوسرے مقام پر اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ثم دنیٰ فتدلیّٰ۰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ۰ فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ ما کذب الفؤا دما رای۰ افتمر ونہ علیٰ مایریٰ۰ ولقد راہ نزلۃ اخریٰ۰ عند سدرۃ المنتہیٰ۰ عندھا جنۃ الماویٰ۰ اذیغشی السدرۃ ما یغشیٰ۰ مازاغ البصر وما طغیٰ۰ لقد رایٰ من اٰیات ربہ الکبریٰ (نجم)‘‘ {پھر نزدیک ہوا پس اور نزدیک ہوا پھر رہ گیا۔ فرق دوکمان کی برابر یا اس سے بھی نزدیک۔ پھر حکم بھیجا اﷲ نے اپنے بندہ پر جو بھیجا غلطی نہیں کھائی۔ رسول کے دل نے جو دیکھا۔ اب کیا تم اس سے جھگڑتے ہو۔ اس پر جو اس نے دیکھا اور اس نے اس کو دیکھا ہے اترتے ہوئے۔ ایک بار اور بھی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اس کے پاس ہے بہشت آرام سے رہنے کی۔ جب چھارہا تھا اس بیری پر جو کچھ بھی چھا رہا تھا۔ بہکی نہیں نگاہ اور نہ حد سے بڑھی بیشک دیکھے اس نے اپنے رب کے بڑے نمونے اور نشانیاں۔}
ان آیات میں جناب رسول اﷲﷺ کے اس سفر کا ذکر ہے جو بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک واقع ہوا ہے۔ جس میں آنکھ اور دل نے بیداری میں سب کچھ دیکھا ہے اور دل اور آنکھوں کو غلطی اور لغزش بھی نہیں ہوئی اور لوگ اس عجیب سفر پر آپ سے جھگڑا بھی کرتے تھے۔