الا فتنۃ للناس (بنی اسرائیل:۶۰)‘‘ {اور نہیں بنایا ہم نے وہ دکھلایا جو ہم نے تجھ کو دیکھایا۔ مگر لوگوں کے لئے آزمائش۔}
یہ آیت بھی آنحضرتﷺ کی معراج کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اگر آپ کو جسم اور روح دونوں کے ساتھ معراج نہ کرائی گئی ہوتی تو اس میں لوگوں کے لئے کیا فتنہ اور کیا آزمائش تھی؟ خواب کا معاملہ نہ فتنہ ہوتا اور نہ آزمائش۔ بلکہ ایک تعبیر طلب امر ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز سب لوگوں کے لئے فتنہ اور آزمائش تھی وہ آنحضرتﷺ کی معراج جسمانی ہی تھی۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ جن کو مرزاقادیانی کے نزدیک بھی قرآن کریم کی بڑی سمجھ اور مہارت حاصل تھی وہ فرماتے ہیں کہ: ’’ھی رؤیا عین اریہا رسول اﷲﷺ لیلۃ اسریٰ بہ (بخاری ج۲ ص۶۸۶، باب وجعلنا الرویا، ترمذی ج۲ ص۱۴۱، ابواب التفسیر)‘‘ {رؤیا سے آنکھوں کا دکھاوا مراد ہے۔ جو کہ آنحضرتﷺ کو معراج کی رات دکھایا گیا تھا۔}
بلکہ ساتھ ہی وہ خواب کی نفی کرتے ہیں کہ: ’’لا رؤیا منام‘‘ (شفا ص۸۷، بدایہ ونہایہ ج۳ ص۱۱۳) اس دکھاوا سے خواب کا دکھاوا مراد نہیں۔
الغرض قرآن کریم کا اسلوب بیان اور حضرت ابن عباسؓ کی روایت اس چیز کو متعین کرتی ہے کہ رؤیا سے آنکھوں کے ساتھ دکھاوا مراد ہے۔ خواب اور کشف ہرگز مراد نہیں۔
سوال… لفظ رؤیا عربی زبان میں خواب پر اطلاق ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معراج خواب کا ایک قصہ تھا یا ایک کشفی امر تھا۔ جو خواب سے قریب تر ہوتا ہے۔
جواب… لغت عربی میں رؤیا کا معنی دکھاوا ہوتا ہے۔ آنکھوں کے ساتھ ہو یا خواب میں ہو۔ پھر جہاں کہیں یہ لفظ خواب پر بولا گیا ہے۔ وہاں ایسے دلائل اور قرائن موجود ہیں کہ اس جگہ دکھاوا سے خواب کا دکھاوا مراد ہے اور جہاں ایسے قرائن موجود نہ ہوں یا وہاں آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کے قرائن موجود ہوں تو اس سے آنکھوں کا دکھاوا مراد ہوگی اور قصہ معراج میں لفظ سبحان، عبد، اسراء اور فتنۃ للناس اور حضرت عبداﷲ بن عباسؓ اور دیگر جمہور صحابہ کرام کی روایات آنکھوں کے ساتھ دکھاوا کو متعین کرتی ہیں۔ لہٰذا رؤیا سے آنکھوں کا دکھاوا ہی مراد ہوگی۔ خواب اور کشف مراد نہ ہوگی۔
البتہ یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا رؤیا کا اطلاق بیداری میں آنکھوں کے ساتھ دیکھنے پر بھی لسان عربی میں وارد ہوا ہے یا نہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ زبان اہل عرب میں رؤیا کا