السمیع البصیر (بنی اسرائیل)‘‘ {پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندہ کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کو گھیر رکھا ہے۔ ہماری برکت نے تاکہ دکھائیں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے۔ وہی ہے سننے والا دیکھنے والا۔}
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے تین چیزیں ارشاد فرمائی ہیں:
۱… لفظ سبحان! یہ لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کہ عجیب وغریب اور خارق عادت نشانیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ یہ لفظ اس چیز کی دلیل ہے کہ آنحضرتﷺ کو جسم عنصری کے ساتھ حالت بیداری میں معراج کرائی گئی۔ ورنہ خواب کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی۔ جس پر اﷲتعالیٰ سبحان کا اطلاق کرتا۔ (بدایہ ونہایہ از حافظ ابن کثیر ج۳ ص۱۱۴)
۲… یہاں لفظ عبد کا اطلاق کیاگیا ہے اور زندہ انسان پر عبد کا اطلاق جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر ہی آتا ہے اور اگر آنحضرتﷺ کو جسم مبارک کے ساتھ سیر نہ کرائی گئی ہوتی تو ’’اسریٰ بعبدہ‘‘ نہ بولا جاتا۔ بلکہ ’’اسریٰ بروح عبدہ‘‘ہوتا۔ حالانکہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ (شفا قاضی عیاضؒ ص۸۶)
۳… مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو اﷲتعالیٰ نے لفظ اسریٰ سے تعبیر فرمایا ہے اور اسریٰ کا اطلاق حقیقتاً رات کی ایک سیر پر ہوتا ہے۔ جو جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہو۔
اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’فاسر باہلک بقطع من اللیل (ھود:۸۱)‘‘ {(اے لوط علیہ السلام) رات کے کسی حصہ میں اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر نکل جا۔}
اس سے یہ تو قطعاً مراد نہیں کہ لوگوں کی ارواح کو لے کر چلے جائیں اور جسم یہاں ہی دھرے رہیں۔ بلکہ جسم اور روح دونوں کو ساتھ لے کر جانا مراد ہے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’واوحینا الیٰ موسیٰ ان اسر بعبادی انکم متبعون (شعرائ:۵۲)‘‘ {اور حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو کہ رات کو لے کر نکل۔ میرے بندوں کو البتہ (فرعونی) تمہارا پیچھا کریںگے۔}
اس آیت میں بھی اسر بعبادی سے زندہ انسانوں کو حالت بیداری میں ساتھ لے جانا مراد ہے نہ کہ روحانی اسراء مراد ہے اور نہ خواب اور کشف۔ ’’وما جعلنا الرٔیا التی ارینک