مرزاقادیانی کے ان حوالہ جات سے بخوبی معجزات کا ممکن الوقوع ہونا ثابت ہوچکا ہے۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوگا کہ کیا کسی چیز کے ممکن ہونے سے اس کا خارج میں متحقق ہونا بھی لازمی ہے؟ اور مرزاقادیانی معجزات کے خارج میں موجود ہونے پر کیا نظریہ رکھتے ہیں؟ تو اس کا جواب بھی مرزاقادیانی کی تحریرات ہی سے سن لیجئے کہ خارج میں معجزات کا وقوع ہوتا رہا ہے۔
۱… مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے۔ مگر خدا نے ان کو صحیح وسالم بچالیا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۴۲، خزائن ج۱۷ ص۳۳۸، حقیقت الوحی ص۵۰، خزائن ج۲۲ ص۵۲)
۲… ’’خداتعالیٰ کی پاک کتابیں یہ گواہی دیتی ہیں کہ یونس علیہ السلام خدا کے فضل سے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے۔‘‘ (مسیح ہندوستان ص۱۶، خزائن ج۵ ص۱۶)
۳… ’’خداتعالیٰ کے کرشمہ قدرت نے ایک لمحہ کے لئے عزیز علیہ السلام کو زندہ کر کے دکھلا دیا۔ تاکہ اپنی قدرت پر اس کو یقین دلائے۔ مگر وہ دنیا میں آنا صرف عارضی تھا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۶۵، خزائن ج۳ ص۲۸۷)
۴… ’’قرآن کریم میں مذکور ہے کہ آنحضرتﷺ کی انگلی کے اشارہ سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا اور کفار نے اس معجزہ کو دیکھا۔‘‘ (ضمیمہ چشمہ معرفت ص۴۱، خزائن ج۲۳ ص۴۱۱)
۵… ’’عصا سانپ کی شکل بن گیا۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۴۳۳، خزائن ج۱ ص۵۱۸)
۶… ’’کمر تک لمبی ڈاڑھی والی ایک عورت تھی۔‘‘ (صداقت مریمیہ ص۹۸)
بقیہ حاشیہ:ثانیاً… حضرت آدم علیہ السلام اور حوّا علیہا السلام نے زمین کے بغیر بھی جنت میں زندگی کا کچھ عرصہ گزرا ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کیوں نہیں گزار سکتے؟ ’’فما ھو جوابکم فھو جوابنا‘‘ ثالثاً … مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’وہی موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لاویں کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے۔ ’’ولم یمت ولیس من المیتین‘‘ (نورالحق حصہ اوّل ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۹) یہاں تو اشارہ قرآن کہا ہے۔ لیکن (حمامۃ البشریٰ ص۳۵، خزائن ج۷ ص۲۲۱) میں لکھتے ہیں کہ: ’’موسیٰ کلیم اﷲ کی زندگی نص قرآنی سے ثابت ہے۔‘‘ تو جس طرح مرزاقادیانی ’’فیہا تحیون‘‘ کے خلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی نص قرآنی سے تسلیم کرتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات بھی مان لیں کہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی۔