۵… ’’کیونکہ اس کی غیرمتناہی حکمتوں اور قدرتوں کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ دوم حاشیہ ص۴۰۷، خزائن ج۱ ص۴۸۶)
۶… ’’اس وقت امام رازی علیہ الرحمتہ کا یہ قول نہایت پیارا معلوم ہوتا ہے کہ: ’’من اراد ان یکتال مملکۃ الباری بمکیال العقل فقد ضل ضلالاً بعیداً‘‘یعنی جو شخص خداتعالیٰ کے ملک کو اپنی عقل کے پیمانہ سے ناپنا چاہے تو وہ راستی اور صداقت اور سلامت روی سے دور جاپڑا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۱۱۹ حاشیہ، خزائن ج۵ ص ایضاً)
۷… ’’حضرت مسیح علیہ السلام کا بغیر باپ کے پیدا ہونا بھی امور نادرہ میں سے ہے۔ خلاف قانون قدرت نہیں ہے۔ کیونکہ یونانی، مصری، ہندی طبیبوں نے اس امر کی بہت سی نظیریں لکھی ہیں کہ بغیر باپ کے بھی بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۱۶، خزائن ج۱۷ ص۲۰۲)
۸… ’’خدا جو آج بھی ایسا ہی قادر ہے۔ جیسا کہ آج سے دس ہزار برس پہلے قادر تھا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۶، خزائن ج۲۱ ص۸)
۹… ’’پھر مضمون پڑھنے والے نے قرآن شریف پر یہ اعتراض کیا کہ اس میں لکھا ہے کہ عیسیٰ معہ گوشت پوست آسمان پر چڑھ گیا۔ ہماری طرف سے یہ جواب کافی ہے کہ اوّل تو خداتعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ انسان معہ جسم عنصری آسمان۱؎ پر چڑھ جائے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۳۱۹، خزائن ج۲۳ ص۲۲۸)
۱؎ لیکن آگے لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں ’’فیہا تحیون‘‘ اس کی نفی کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر تشریف لے گئے ہوں۔ کیونکہ آیت مذکورہ کا معنی یہ ہے کہ انسان زمین ہی پر زندہ رہتے ہیں اور رہیںگے تو عیسیٰ علیہ السلام اس عام قانون سے کس طرح مستثنیٰ ہوسکتے ہیں؟ ہم اس کے اختصاراً جوابات عرض کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی کا استدلال صحیح نہیں۔ اوّلاً… ہزاروں لوگ ہوائی جہازوں پر سیر کرتے وقت فضائے آسمانی میں زمین سے دور ہوکر زندہ رہتے ہیں۔ تو کیا یہ ’’فیہا تحیون‘‘ کے مطابق ہے؟ اور اب تو چاند اور مشتری وغیرہ پر سفر کرنے کے امکانات موجودہ سائنس نے اور مہیا کر دئیے ہیں۔ اگر روسی کتیا ’’لائیکا ‘‘ فضائے آسمانی میں کئی دن زندہ رہ سکتی ہے اور اگر معلّق اڈہ بنانا ممکن ہوسکتا ہے اور اگر چاند تک سفر کرنے والوں کے لئے سیٹیں ریزرو ہوسکتی ہیں اور اگر روسی جھنڈا چاند میں مرتکز ہوسکتا ہے اور اگر ان کا راکٹ وہاں تک پہنچ سکتا ہے تو معراج جسمانی اور رفع مسیح علیہ السلام پر کیا اشکال ہوسکتا ہے؟ باقی طویل اور غیر طویل زندگی کے فرق امتیازی پر نہ عقلی دلیل قائم ہے اور نہ نقلی۔ بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر