’’معجزہ فعل نبی نیست بلکہ فعل خدائے تعالیٰ است کہ بردست وے اظہار نمودہ بخلاف افعال دیگر کہ کسب ایں ازبندہ است وخلق از خدا تعالیٰ ودرمعجزہ کسب نیزاز بندہ نیست (مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۱۶)‘‘ {معجزہ نبی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ خداتعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جس کو نبی کے ہاتھ پر وہ ظاہر کرتا ہے۔ بخلاف دیگر افعال کے کہ ان میں کسب بندہ کی طرف سے اور خلق خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ مگر معجزہ میں کسب بھی بندہ کی طرف سے نہیں ہوتا۔}
نیز حضرت شیخ صاحبؒ ارقام فرماتے ہیں کہ: ’’چہ معجزہ وکرامت فعل خدا است کہ ظاہر مے گردد بردست بندہ بجہت تصدیق وتکریم وے نہ فعل بندہ است کہ صادر مے گردد بقصد واختیار اومثل سائر افعال (فتوح الغیب ص۲۷)‘‘ {کیونکہ معجزہ اور کرامت خداتعالیٰ کا فعل ہے جو بندہ کے ہاتھ پر اس کی تصدیق وتکریم کی غرض سے صادر ہوتا ہے۔ معجزہ اور کرامت بندہ کا فعل نہیں ہے جو اس کے قصد واختیار سے صادر ہو جیسے کہ اس کے دوسرے افعال اختیار یہ ہیں جو اس کے قصد واختیار سے صادر ہوتے ہیں۔}
ایک چیز اور بھی قابل لحاظ ہے وہ یہ کہ خلاف عادت چیز کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا باطل ہے کہ جس کے ہاتھ پر یہ واقعہ صادر ہوا ہے۔ وہ ولی ہے۔ ورنہ (معاذ اﷲ) دجال رئیس الاولیاء ہو جائے گا۔ بلکہ اگر کسی کا عقیدہ صحیح ہو اور وہ متقی اور نیک ہو تو جو چیز اس کے ہاتھ پر صادر ہوگی۔ اس کو کرامت اور جس کے ہاتھ پر صادر ہوئی ہے۔ اس کو ولی کہیں گے ورنہ استدراج ہوگا۔ جو کافروں اور بدکاروں کے ہاتھ پر بھی صادر ہو جاتا ہے۔ یعنی خارق عادت چیز سے کسی کی ولایت پر استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اس کی نیکی اور تقویٰ سے اس کے ہاتھ پر صادر ہونے والے فعل کو کرامت سے تعبیر کیا جائے گا اور ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ معجزہ نبی کا اپنا فعل نہیں ہوتا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کا فعل ہوتا ہے تو اس قاعدہ کو ذہن نشین کرلینے کے بعد نہ آنحضرتﷺ کے معراج جسمانی پر انکار ہوسکتا ہے اور نہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر تشریف لے جانے پر۔ کیونکہ یہ فعل خود جناب باری تعالیٰ کا تھا اور اس کے لئے کوئی چیز انہونی نہیں۔ ’’ان اﷲ علیٰ کل شیٔ قدیر‘‘
اگرچہ وہ خارق عادت چیز پرازتعجب تو ہوسکتی ہے۔ لیکن قابل انکار ہرگز نہیں ہوسکتی اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اس چیز میں حیرت انگیز خوبی موجود نہ ہو تو معجزہ (اور انگریزی میں مرکیل)