المعتزلۃ صادرۃ عنہم الا ان المعجزۃ لاتکون من جنس افعالہم ولیس النبی فیہا عند سائر المتکلمین الا التحدی بہا باذن اﷲ وھو ان یستدل بہا النبیﷺ قبل وقوعہا علی صدقہ فی مدعاہ فاذا وقعت تنزلت منزلۃ القول الصریح من اﷲ بانہ صادق (مقدمہ ص۹۳)‘‘ {انبیاء کرام علیہم السلام کی علامات میں سے خوارق عادت وقوع بھی ہے جو ان کی صداقت پر شہادت دیتے ہیں اور وہ ایسے افعال ہوتے ہیں جن سے انسان عاجز ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو معجزہ کہا جاتا ہے اور یہ افعال ان افعال کی جنس نہیں ہیں۔ جن پر بندوں کو قدرت ہوتی ہے۔ بلکہ یہ افعال بندوں کے محل قدرت سے باہر ہوتے ہیں اور لوگوں کا معجزات کے وقوع اور ان کی تصدیق انبیاء پر دلالت کرنے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ متکلمین کہتے ہیں کہ چونکہ فاعل مختار ایک ہی ہے۔ اس لئے یہ معجزات اﷲتعالیٰ کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔ نبی کے فعل سے نہیں واقع ہوتے۔ معتزلہ اگرچہ بندوں کے افعال کو خود ان سے صادر مانتے ہیں۔ مگر معجزات کے بارے میں معتزلہ بھی یہی کہتے ہیں کہ معجزات میں بندوں کے فعل کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور تمام متکلمین کے نزدیک نبی کا کام معجزہ میں صرف باذن اﷲ تحدی کرنا ہے کہ وہ ان کے وقوع سے پہلے اپنے مدعا کے صدق پر اس سے استدلال کرتے ہیں اور جب معجزہ واقع ہو جاتا ہے تو گویا خدا کی طرف سے صریح قول صادر ہوجاتا ہے کہ نبی صادق ہے اور معجزہ گویا بمنزلہ قول صریح کے ہوتا ہے۔}
علامہ کی اس عبارت سے صاف طور پر یہ معاملہ حل ہوگیا ہے کہ معجزات ان افعال سے ہرگز نہیں ہیں۔ جن پر انسانوں کو قدرت حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ معجزات محل قدرت سے بالکل خارج ہوتے ہیں۔ نیز یہ بھی واضح ہوگیا کہ متکلمین کے نزدیک معجزہ اﷲتعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ نبی کا فعل نہیں ہوتا۔ نبی کا کام اس میں صرف باذن اﷲ تحدی ہوتی ہے اور بس اور یہ معجزہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے نبوت ورسالت کی عملی تصدیق ہوتی ہے۔ جو گویا اس قول خداوندی کے قائم مقام ہوتی ہے کہ واقعی یہ میرا رسول اور نبی ہے اور میں اس معجزہ کے فعل سے اس کی تصدیق کرتا ہوں۔
۶… حافظ کمال الدین ابن ھمام الحنفیؒ المتوفی ۸۶۱ھ لکھتے ہیں کہ: ’’انہا لما کانت مما یعجز عنہ الخلق لم تکن الافعلاﷲ سبحانہ (المسائرہ ج۲ ص۸۹، مع المسامرہ)‘‘ {معجزہ جب ایسی چیز ہے کہ اس کے صادر کرنے سے مخلوق عاجز ہے تو معجزہ صرف اﷲتعالیٰ ہی کا فعل ہوگا۔}
۷… حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی الحنفیؒ المتوفی۱۰۵۲ھ تحریر فرماتے ہیں کہ: