مالیخولیا یا مراق کا مریض
’’سوال… مالیخولیا یا مراق کس بیماری کو کہتے ہیں؟ اس کی نشانی کیا ہے؟
جواب… مالیخولیا کی ایک قسم مراق ہے یہ مرض تیز سودا سے جو معدہ میں جمع ہوتا ہے پیدا ہوتا ہے۔ جس عضو میں یہ مادہ جمع ہو جاتا ہے اس سے سیاہ بخارات اٹھ کر دماغ کی طرف چڑھتے ہیں۔ (شرح الاسباب والعلامات) تحقیقات جدیدہ سے معلوم ہوا ہے کہ مرض عصبی ہے اور جیسا کہ عورتوں میں رحم کی مشارکت سے مرض اختناق الرحم (ہسٹریا) پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اندرونی اعضاء کے فتور سے ضعف دماغ ہوکر مردوں میں مراق ہو جاتا ہے۔‘‘
(مخزن حکمت مصنفہ حکیم ڈاکٹر غلام جیلانی طبع دوم)
علامات مرض
’’کھٹی ڈکاریں آنا، ہاضمہ خراب ہوجانا، پاخانہ پتلا ہونا، ہر بات میں مبالغہ کرنا۔ گاہے جسم کے اوپر حصہ میں کپکپی اور لرزہ ہاتھ پاؤں کی ہتھیلیوں یا تمام بدن کا ٹھنڈا ہو جانا۔ مرض کی کمی بیشی کے مطابق کمزوری لاحق ہونا۔ یہاں تک کہ کبھی غشی تک نوبت پہنچ جائے۔‘‘
مالیخولیا یا مراق کے کرشمے
’’بعض مریضوں میں گاہے گاہے یہ فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیب داں سمجھتا ہے۔ اکثر ہونے والے امور کی پہلے ہی خبر دے دیتا ہے اور بعض میں یہ فساد یہاں تک ترقی کر جاتا ہے کہ اس کو اپنے متعلق یہ خیال ہوتا ہے کہ میں فرشتہ ہوں۔‘‘
(شرح الاسباب والعلامات طبی کتاب)
’’مریض کے اکثر اوہام اس کام کے متعلق ہوتے ہیں۔ جس میں مریض زمانہ صحت میں مشغول رہا ہو۔ مثلاً… مریض صاحب علم ہو تو پیغمبری اور معجزات وکرامات کا دعویٰ کر دیتا ہے۔ خدا کی باتیں کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘ (اکسیر اعظم جلد اوّل ص۱۸۸)
مراق کا سلسلہ
’’مراق کا مرض حضرت مرزا (غلام احمد قادیانی) کو موروثی نہ تھا۔ بلکہ یہ خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوا تھا اور اس کا باعث سخت دماغی محنت تفکرات، غم اور سوء ہضم تھا۔ جس کا نتیجہ دماغی ضعف تھا اور جس کا اظہار مراق اوردیگر ضعف کی علامات مثلاً دوران سر کے ذریعہ ہوتا تھا۔‘‘
(رسالہ ریویو قادیان ص۱۰، بابت اگست ۱۹۲۶ئ)