ڈالی گئی۔ یعنی باجود یوسف نجار کے نکاح میں آوے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے نہ قابل اعتراض۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸)
ناظرین! حضرت مریم صدیقہ علیہا السلام کو جس کی پاکدامنی کی تصدیق قرآن ’’التی احصنت فرجہا‘‘ {یعنی مریم وہ ہے جس نے ہمیشہ اپنے کو باعصمت رکھا ہے} کر رہا ہے۔ اس کے متعلق مرزاقادیانی کس قدر تہمتیں لگارہے ہیں۔
پہلی تہمت: حضرت مریم علیہا السلام کو نکاح کے قبل حمل ہو گیا تھا۔
دوسری تہمت: حمل کی حالت میں نکاح کر دینا توریت کی بناء پر ناجائز تھا۔ جس کے معنی یہ ہوئے کہ نکاح کے بعد جو اولاد ہوگی ناجائز نکاح سے پیدا ہوئی۔
تیسری تہمت: مریم علیہا السلام نے خدا سے کنواری رہنے کا عہد کر کے اپنے عہد کو توڑ ڈالا۔
چوتھی تہمت: یہ کہ قرآن تو عیسیٰ کے بن باپ کے پیداہونے کو ظاہر کرنے کے لئے ماں کی طرف نسبت کر کے ابن مریم کہے اور مرزاغلام احمد قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے یوسف نجار کو باپ ٹھہرائیں اور مریم بتول کے لئے قرآنی حکم کے خلاف یوسف نجار سے نکاح کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جھوٹ بولنے کا اتہام
’’یہ بھی یاد رہے کہ آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔ جن جن پیشین گوئیوں کا اپنی ذات کی نسبت توریت میں پایا جانا آپ نے بیان فرمایا ہے۔ ان کتابوں میں ان کا نام ونشان نہیں پایا جاتا۔ بلکہ وہ اوروں کے حق میں تھیں۔ جو آپ کے تولد سے پہلے پوری ہو گئیں اور نہایت شرم کی بات ہے کہ آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے۔ یہودیوں کی کتاب طالمود سے چرا کر لکھا ہے۔ پھر ایسا ظاہر کیا ہے گویا یہ میری تعلیم ہے۔ لیکن جب سے یہ چوری پکڑی گئی۔ عیسائی بہت شرمندہ ہیں۔ آپ نے یہ حرکت شاید اس لئے کی ہوگی کہ کسی عمدہ تعلیم کا نمونہ دکھلا کر رسوخ حاصل کریں۔ لیکن آپ کی اس بیجا حرکت سے عیسائیوں کی سخت روسیاہی ہوئی۔ (بقول مرزاقادیانی عیسیٰ چور تھے اور عیسیٰ کی تعلیم کچھ عمدہ نہیں تھی) پھر افسوس یہ ہے کہ وہ تعلیم بھی کچھ عمدہ نہیں۔ عقل اور کانشنس دونوں اس تعلیم کے منہ پر طمانچے مار رہے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵،۶ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹،۲۹۰)