جواب… نبی عربیﷺ کا آخری نبی ہونا اور آپؐ کے بعد نبی نہ بن سکنے کی حدیثیں متواتر طور پر ثابت ہیں۔ چونسٹھ صحابی روایت کرتے ہیں کہ آپؐ آخری نبی ہیں۔ آپؐ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جن میں سے بعض یہ ہیں۔
(۱)حضرت قتادہؓ۔ (۲)حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ۔ (۳)حضرت حسنؓ۔ (۴)حضرت جابرؓ۔ (۵)حضرت ابو سعید خدریؓ۔ (۶)حضرت ابوالطفیلؓ۔ (۷)حضرت ابوہریرہؓ۔ (۸)حضرت انسؓ۔ (۹)حضرت عفان بن مسلمؓ۔ (۱۰)حضرت ابومعاویہؓ۔ (۱۱)حضرت جبیر بن مطعمؓ۔ (۱۲)حضرت عبداﷲ بن عمرؓ۔ (۱۳)حضرت ابی بن کعبؓ۔ (۱۴)حضرت حذیفہؓ۔ (۱۵)حضرت ثوبانؓ۔ (۱۶)حضرت عبادہ بن صامتؓ۔ (۱۷)حضرت عبداﷲ بن عباسؓ۔ (۱۸)حضرت عطاء بن بیسار۔ (۱۹)حضرت سعد بن ابی وقاصؓ۔ (۲۰)حضرت عرباض بن ساریہؓ۔ (۲۱)حضرت عقبہؓ۔وغیرہ وغیرہ سب کے سب سند متصل سے حضورﷺ کے قول کو نقل کر رہے ہیں۔ جن کی بناء پر کوئی مسلمان بلکہ کوئی منصف مزاج کافر بھی ان چونسٹھ حضرات صحابہؓ کی شہادتوں کے بعد حضورﷺ کو آخری نبی بنائے جانے میں کسی قسم کا شک نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ کے زمانہ سے لے کر اب تک سوائے چند سرپھروں کے ساری امت نے آپؐ کو خاتم النبیین مانا ہے۔ اس متفقہ اجماعی عقیدہ کے خلاف کرنے والے کو کافر، ملحد وبے دین شمار کیا ہے۔ باقی رہی حضرت عائشہ صدیقہؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ کی روایت۔
اوّل… تو یہ دونوں روایتیں غیرمعتبر اور بے سند ہیں۔ ان کے راویوں کا کوئی پتہ نہیں۔ علامہ سیوطیؒ نے بلا سند ان کو درمنثور میں نقل کر دیا ہے۔ (درمنثور ج۵ ص۲۰۴) بھلا یہ دو روایتیں بلاسند کے چونسٹھ صحابہؓ کے روایت کردہ حدیث متواترہ سے لگا کھا سکتی ہیں۔
دوم… چونسٹھ صحابہؓ کی روایت کردہ حضورﷺ کی قولی حدیث کے مقابلے میں دو صحابہ کی رائے کو کوئی اہمیت دی جاسکتی ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ لہٰذا مذکورہ بالا دونوں روایتیں بے سند غیر مقبول مرجوح روایتیں ہیں۔
سوم… اگر بالفرض ان دونوں روایتوں کو درست مان لیں تو صحابی کے قول کو اچھے عمل پر محمول کرتے ہوئے یوں تاویل کی جاسکتی ہے کہ قرب قیامت میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول کا مسئلہ مسلمانوں کا اجماعی مسئلہ ہے۔ غالباً ان دونوں صحابہؓ کو ’’لا نبی بعدی‘‘ سے اس اجماعی مسئلہ کے انکار یا نسخ کا شبہ تھا۔ اس لئے احتیاطاً منع کیا ہو۔ چنانچہ مغیرہ بن شعبہ کی روایت میں اسی طرف اشارہ موجود ہے۔