جن پر اﷲ نے انعام فرمایا ہے وہ نبیین شہداء اور صدیقین ہیں۔ دونوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے ہمیں نبیین، صدیقین اور شہداء کے راستہ پر چلائے۔ مقبولیت کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ مسلمانوں کے حسب منشاء انہیں انبیائ، شہداء اور صدیقین کے راستے پر چلاتا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نبیین، شہداء اور صدیقین میں سے ہیں۔ لہٰذا حضورﷺ کے بعد بھی ہر مسلمان نبی ہوسکتا ہے۔
خلاصہ اس استدلال کا یہ ہے کہ جو جس راستے پر چلتا ہے وہ وہی بن جاتا ہے۔ اس بناء پر نبیین کے راستے پر چلنے والا نبی، صدیقین کے راستے پر چلنے والا صدیق اور شہداء کے راستے پر چلنے والا شہید بن جاتا ہے۔
جواب… یہ دلیل تو حد سے زیادہ لچر ہے۔ اس لئے کہ اس دلیل کی بناء پر کلکٹر کے راستے پر چلنے والا کلکٹر، وائسرائے کے راستے پر چلنے والا وائسرائے، بادشاہ کے راستے پر چلنے والا بادشاہ ہو جایا کرے تو پھر قرآن میں ’’صراط اﷲ العزیز‘‘ کی وجہ سے مرزاقادیانی کی تجویز کردہ قانون کے مطابق جو شخص اﷲ کے راستے پر چلے گا وہ معاذ اﷲ خدا بن جائے گا۔
ساتواں شبہ
سیوطیؒ نے درمنثور میں مصنف ابن ابی شیبہ سے حضرت صدیقہ عائشہؓ کا قول نقل کیا ہے۔ ’’قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ (درمنثور ج۵ ص۲۰۴)‘‘ {آپؐ کو خاتم النبیین کہو۔ لیکن یہ نہ کہو کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔}
مغیرہ بن شعبہؓ کے سامنے ایک شخص نے ’’صل اﷲ علی محمد خاتم الانبیاء لا نبی بعدہ‘‘ کہا تو مغیرہ بن شعبہؓ نے فرمایا: ’’حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء فانا کنا نحدث ان عیسیٰ علیہ السلام خارج فان ھو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ (درمنثور ج۵ ص۲۰۴)‘‘ {خاتم الانبیاء کہہ دینا کافی ہے۔ ’’لا نبی بعدہ‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم سے حدیث بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے والے ہیں تو وہ آپؐ سے پہلے بھی ہوئے اور بعد میں بھی ہوں گے۔}
مندرجہ بالا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے بعد نبی ہوسکتا ہے۔ نبوت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ تبھی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ ’’لا تقولو لا نبی بعدی‘‘ کہہ کر منع فرمارہی ہیں۔ اسی کی تائید مغیرہ بن شعبہؓ جیسے جلیل القدر صحابیؓ کر رہے ہیں۔