اپنے پہلے نبی کے اعتبار سے خاتم ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے کے نبیوں کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے سے پہلے نبیوں کے لئے وغیرہ۔ اسی طرح حضور اکرمﷺ کو بھی بعض نبیوں کے اعتبار سے خاتم مانیں تو پھر حضورﷺ کا کوئی کمال نہیں رہا۔ حالانکہ آیت کا سباق یعنی مضمون بتلارہا ہے کہ خاتم النبیین ہونا آپؐ کی خاص فضیلت ہے۔ چنانچہ مسلم شریف میں بروایت ابوہریرہؓ منقول ہے کہ حضورﷺ اپنی مخصوص فضیلت کو شمار کرتے ہوئے فرمایا: ’’وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون (مسلم ج۲ ص۱۹۹)‘‘ {میں تمام مخلوقات کی طرف مبعوث کیاگیا ہوں اور مجھ پر انبیاء ختم کر دئیے گئے۔}
نوٹ: اﷲتعالیٰ چونکہ عالم الغیب ہیں۔ انہیں معلوم تھا کہ بعض بیوقوف چودھویں صدی میں حضورﷺ کو خاتم الرسالۃ تو مانیںگے۔ لیکن خاتم النبیین نہیں مانیںگے۔ آپؐ کے بعد غیرتشریعی نبوت یعنی نبیوں کے سلسلہ کو مانتے ہوئے جھوٹے نبیوں کو مانیں گے۔ اس جھوٹے دعوے کو رد کرنے کے لئے فرمایا: ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘
نبی عربی (محمد رسول اﷲﷺ) تو اﷲ کے رسول ہیں اور نبوت کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں۔ یعنی جب نبوت عام ہوئی رسالت سے تو نبیوں کے خاتم ہونے سے آپؐ رسولوں کے خاتم ہوئے۔ (تفسیر ابن کثیر ج۸ ص۸۹، روح المعانی ج۷ ص۶۰، کلیات ابوالبقاء ص۳۱۰)
پانچواں شبہ
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: اچھی خواب کا نبوت کے جز ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت باقی ہے۔ اب بھی نبی ہوسکتا ہے۔
جواب… بالکل غلط ہے۔ خواب تو جز ہے۔ جز کے موجود ہونے سے کل کا موجود ہونا لازم نہیں آتا۔ جیسے نمک پلاؤ کا جز ہے۔ نمک کے موجود ہونے پر پلاؤ موجود ہے۔ کہنا بے عقلی ہے۔ اسی طرح ناخن انسان کا جز ہے۔ صرف ناخن کے موجود ہونے کو دیکھ کر انسان کے موجود ہونے کا حکم لگانا بیوقوفی ہے۔ اسی طرح نبوت کے صرف ایک جز کے باقی رہنے کو دیکھ کر نبوت کا دعویٰ کرنا ہمالیہ کے برابر غلطی کرنا ہے۔
چھٹا شبہ
مسلمان پنجگانہ نماز کے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم‘‘ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے اﷲ! ہم کو صراط مستقیم یعنی سیدھے راستہ پر چلا۔ جو ان لوگوں کا راستہ ہے۔ جن پر تونے انعام فرمایا ہے اور