مراد لینا مجازی ہے تو جب تک حقیقی معنی مراد لیا جاسکتا ہے۔ اس وقت تک مجازی معنی مراد لینا ناجائز ہوگا۔
اسی طرح خاتم النبیین کے معنی نبیوں کی زینت مراد لینا مجازی معنی ہے۔ اصلی معنی کے ہوتے ہوئے مجازی معنی مراد لینا درست نہیں۔
اگر اس تاویل کو درست مانا جائے تو پھر ’’اقیمو الصلوٰۃ‘‘ سے نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ وہ بیکار ہو جائے گی۔ صرف درود پڑھ لینا کافی ہو جائے گا۔ کیونکہ صلوٰۃ کے حقیقی معنی نماز پڑھنے کے ہیں۔ مجازی معنی درود پڑھنا ہے۔ اسی طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ سب کی فرضیت ساقط ہو جائے گی۔ سب تاکیدیں باطل ہو جائیں گی۔ الغرض مندرجہ بالا تاویل قرآن وحدیث ولغت ومحاورۂ عرب کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔ بیہودہ ہے۔
چوتھا شبہ
قرآن کریم میں ’’یقتلون النبیین‘‘ سے مراد بعض انبیاء مراد ہیں۔ جن کو بنی اسرائیل نے قتل کر دیا تھا۔ سب انبیاء مراد نہیں۔ اسی طرح خاتم النبیین سے مراد صرف تشریعی نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والا مراد ہے۔ عام نبوت مراد نہیں ہے۔ یعنی لام استغراق عرفی مراد ہے۔
جواب… مذکورہ بالا معنی لینا غلط اور نادرست ہے۔ اس لئے کہ اس طرح معنی لیا جائے تو قرآن کی ہزاروں آیتوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مثلاً اسی صورت میں:
۱…
رب العالمین کے معنی بعض عالم اور جہاں کا رب ہوگا۔ ساری دنیا کا رب نہیں ہوگا۔
۲…
اعدت اللکافرین: بعض کافروں کے لئے جہنم تیار کیاگیا ہے۔ سب کافروں کے لئے نہیں۔
۳…
واﷲ علیم بالظالمین: اﷲ بعض ظالموں کو جاننے والے ہیں۔ سب ظالموں کو جاننے والے نہیں۔
۴…
وموعظۃ للمتقین: قرآن بعض متقی پرہیزگار کے لئے نصیحت ہے۔ سب پرہیز گاروں کے لئے نہیں۔
۵…
ھوالرحمن الرحیم: اﷲ بعض رحم کرنے والوں کے اعتبار سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ سب رحم کرنے والوں کے اعتبار سے نہیں۔ وغیرہ وغیرہ!
اس صورت میں نہ اﷲ اﷲ رہ سکتا ہے نہ قرآن قرآن رہ سکتا ہے۔ دوسری خرابی یہ کہ خاتم النبیین کے معنی یعنی نبیوں کے اعتبار سے خاتم ہو تو پھر حضورﷺ کی کیا خصوصیت رہی۔ ہر نبی