وقت کو یاد کرو جب کہ (یوم الست) میں ہم نے نبیوں سے یوم میثاق یعنی احکام کے پورے پورے طور پر پہنچانے کے بارے میں عہد لیا تھا۔ آخر آیت تک میں خلقت میں سب نبیوں سے پہلے اور بعثت میں سب سے آخری ہوں۔}
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے آخر میں آپؐ نبی بناکر بھیجے گئے۔ نہ یہ کہ آپؐ سے پہلے کے نبی وفات پاچکے۔ الغرض حضورﷺ کے آخری نبی بننے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پانے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
دوسرا شبہ
قادیانی صاحبان کہتے ہیں خاتم النبیین میں خاتم سے مراد مہر ہے۔ آیت سے مراد یہ ہے کہ آپؐ انبیاء کی مہر ہیں۔ یعنی آپؐ کی مہر سے انبیاء بنتے ہیں اور آپؐ کی تصدیق کر کے ہر شخص نبوت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ (حقیقت الوحی ص۹۷، خزائن ج۲۲ ص۱۰۰)
جواب یہ ہے خاتم النبیین کا مذکورہ بالا معنی نہ قرآن میں موجود ہے نہ حدیث اور اقوال صحابہ میں موجود ہے۔ بلکہ لغت اور محاورۂ عرب کے بھی خلاف ہے۔
اگر خاتم النبیین کا یہی مطلب اور معنی ہو تو پھر خاتم الاولاد کے معنی یہ اولاد کی مہر ہے۔ اس کی مہر سے اولاد بنتی ہے۔ خاتم المہاجرین کے معنی یہ کہ مہاجرین کی مہر ہے۔ اسی سے مہاجرین بنتے ہیں۔ ہونا چاہئے حالانکہ ادنیٰ عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ مذکورہ بالا معنی غلط ہے۔ اسی طرح خاتم النبیین کا مذکورہ بالامعنی بالکل غلط ہے۔ بلکہ صحیح معنی وہی ہیں جو گذر چکا ہے کہ آپؐ سب نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والے نبی ہیں۔ آپؐ کے بعد نہ کسی کو نبی بنایا جائے گا نہ کوئی نیا نبی آسکے گا۔
تیسرا شبہ
خاتم النبیین میں خاتم کے معنی نبیوں کی انگوٹھی کا نگینہ لے کر زینت مراد لیا جائے۔ اب آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ آپؐ نبیوں کی زینت ہیں۔ ختم نبوت سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں۔
جواب یہ ہے۔ یہ معنی لینا خود قرآنی آیات واحادیث کے خلاف ہے۔ نیز اصول ولغت کے بھی خلاف ہے۔ قرآنی آیات اور احادیث وتفسیر کی تحقیق گذر چکی ہے۔ اصول میں ہے کہ جب تک کسی لفظ کے حقیقی اور اصلی معنی لینا ممکن ہوں مجازی معنی لینا جائز نہیں ہے۔ مثلاً احمد آیا۔ میں احمد کسی خاص ایک شخص کا نام ہے۔ احمد کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ احمد بول کر اس کی صورت