گیا۔ آپؐ کے بعد اور کسی کو نبی نہیں بنایا جائے گا۔ نبوت نہیں دی جائے گی۔ نبی بنانے کے اعتبار سے آپؐ آخری نبی ہیں۔ نیز اس معنی کے اعتبار سے آپؐ سے پہلے کے تمام انبیاء علیہم السلام کا فوت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ مثلاً ’’آخرالاولاد، یا خاتم الاولاد‘‘ کے معنی عرف لغت اور محاورہ میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ بچہ سب سے آخر میں پیدا ہوا۔ اس بچے کے بعد اور کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ اس سے پہلے کے تمام اولاد مرکھپ گئے۔ سب بچوں کا صفایا ہوگیا۔ اسی طرح آپؐ کے آخری نبی بنانے کا مطلب انبیائے سابقین کی موت مراد لینا ہرگز درست نہیں ہوگا۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپؐ سے پہلے نبی بنائے گئے تھے۔ اس لئے آپؐ خاتم النبیین بنائے جانے کے بعد قرب قیامت میں نازل ہونے سے آپؐ کی نبوت میں خلل اور نقصان نہیں پہنچتا۔
اسی طرح آخر الجالسین بمعنی آخر میں بیٹھنے والا۔ آخر الراحلین، آخری کوچ کرنے والا۔ آخر الراکبین آخر میں سوار ہونے والا۔ آخر الذاہبین آخری جانے والا۔ آخر القادمین آخری آنے والا۔ آخر المساجد نبیؐ کی بنائی ہوئی آخری مسجد سے لازم نہیں آتا کہ پہلے بیٹھنے والے مرگئے۔ آخری کوچ کرنے والا کہنے سے اس سے پہلے کوچ کرنے والے مرگئے۔ اخیر میں سوار ہونے والا کہنے سے پہلے سوار ہونے والے مر گئے۔ آخری جانے والا کہنے سے پہلے جانے والے مرگئے۔ آخر المسجد کہنے سے پہلی مسجدیں برباد ہوگئیں۔
۲… اسی طرح حضرت عباسؓ کی درخواست پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’یاعم! آقم مکانک الذی انت فیہ فان اﷲ یختم بک الہجرۃ کما ختم بی النبیون (رواہ الطبرانی ج۶ ص۱۵۴، وابونعیم وابویعلی وابن عساکر وابن الجار)‘‘ {اے میرے چچا اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ نے تم پر ہجرت ختم کر دی ہے۔ جیسا کہ مجھ پر انبیاء کو ختم کر دیا۔}
حضرت عباسؓ کے خاتم المہاجرین ہونے سے لازم نہیں آتا کہ آپ کی ہجرت سے آپ کے پہلے کے مہاجرین مرجائیں۔ اسی طرح حضورﷺ کے خاتم النبیین بنائے جانے سے حضورﷺ کے پہلے کے انبیاء کا مرجانا لازم نہیں آتا۔
۳… ’’واذ اخذنا من النبیین میثاقہم ومنک ومن نوح‘‘ کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا۔ ’’کنت اوّل النبیین فی الخلق واٰخرہم فی البعث (تفسیر ابن کثیر ج۸ ص۸۹)‘‘ {اس