کوشش کی ہے اور کبھی طشت طلائی وغیرہ کی تلاش میں سرگرداں رہے ہیں۔ الغرض مرزاقادیانی کی ان کج بحثیوں اور موشگافیوں کو دیکھ کر تعجب سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ؎
الٰہی کیوں نہیں آتی قیامت ماجرا کیا ہے
انشاء اﷲ العزیز! ہم اس کتابچہ میں ان تمام پیش کردہ اصولی نقلی اور عقلی دلائل کو بے نقاب کر کے عامۃ المسلمین کو آگاہ کریںگے کہ مرزاقادیانی اور ان کے امتیوں کے دوسرے مسائل کی طرح مسئلہ معراج جسمانی کے انکار پر جو دلائل پیش ہوتے ہیں وہ پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ ان کو بجائے دلائل کے تحریف سے یاد کرنا زیادہ مناسب اور موزؤں ہے۔ بعض پڑھے لکھے حضرات کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اگر مرزاقادیانی اپنے جملہ دعاوی میں سچے نہیں تھے تو عقلاء کا ایک کافی طبقہ ان کا ساتھ کیوں دیتا ہے؟ لیکن یہ ایک ایسا کھلا ہوا مغالطہ ہے کہ اس کے رد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اﷲتعالیٰ نے بہت سی اقوام کا ذکر فرماکر قوم عاد اور قوم ثمود کا خاص طور پر نام لے کر ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’وکانوا مستبصرین (عنکبوت:۳۸)‘‘ {وہ ہوشیار اور سمجھ دار تھے۔}
توکیا کسی عقلمند کو یہ کہنا جائز ہے کہ اگر وہ قومیں حضرت ہود اور حضرت صالح علیہم السلام کے مقابلہ میں سچی نہ ہوتیں تو لوگ ان کا ساتھ کیوں دیتے؟ مگر حاشا وکلا کہ کسی مسلمان کے دل میں ان کی سچائی کا وہم بھی گذرتا ہو۔ وعلیٰ ہذا القیاس! فرعون، ہامان اور قارون وغیرہ جیسے بیشمار سمجھدار اور حکمران پہلے بھی گذر چکے ہیں اور آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ جو سرے سے اسلام ہی کو سچا نہیں سمجھتے۔ تو کیا ان کا مذہب اسلام کے مقابلہ میں سچا ثابت ہوسکتا ہے؟ ان کا ساتھ دینا تو الگ بات ہے ہمارے پاس قرآن کریم موجود ہے۔ اس سے ہمیں تو یہ بھی معلوم ہے کہ حضرت ہارون اور موسیٰ علیہم السلام کی موجودگی اور ان کی زندگی میں ان کے ظاہری عقیدت مندوں نے گؤسالہ کی۔ ایک ہی آواز پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ بقول شخصے ؎
عمر ہادید مذقوم دوں زموسیٰ معجزات
آں ہمہ شدگاہ خورد از بانگ یگ گوسالۂ
لہٰذا مرزاقادیانی کی جماعت میں چند وکلاء کے داخل ہو جانے سے ان کے مذہب کی سچائی لازم نہیں آتی۔ سچائی تو دلائل اور براہین کے رو سے پیش کی جاسکتی ہے اور مرزاقادیانی اور ان کی امت سے تاقیامت کسی ایک مسئلہ پر بھی کوئی دلیل قائم نہیں ہوسکتی۔ ’’وانی لہم التناوش من مکان بعید‘‘ لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ وہ فوراً یہ پڑھ سنائیں گے ؎