لیکن چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر تشریف لے جانا اور قرب قیامت نازل ہونا (جیسا کہ ظاہر قرآن اور متواتر۱؎ درجہ کی حدیثوں سے ثابت ہے) مرزاقادیانی کے دعویٰ کے ابطال پر کافی اثرانداز ثابت ہوتا تھا۔ اس لئے انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ہی سے صاف انکار کر دیا اور پھر جب کہ آنحضرتﷺ کے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر تشریف لے جانے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع پر قوی استدلال اور امکان ثابت ہوتا ہے۔ تو اس لئے مرزاقادیانی نے راستہ کے اس روڑے کو بھی ہٹا دیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ العیاذ باﷲ!
مرزاقادیانی وغیرہ نے آنحضرتﷺ کی معراج جسمانی کے انکار پر کبھی تو نقلی دلائل کی آڑ لی ہے کہ لفظ رؤیا سے خواب مراد ہے اور حضرت عائشہؓ، حضرت امیر معاویہؓ، امام حسن بصریؒ، شیخ ابن عربیؒ اور شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلویؒ وغیرہ کے نزدیک بھی معراج جسمانی نہ تھی۔ بلکہ ایک روحانی اور کشفی امر تھا اور کبھی نئے اور پرانے فلسفہ کی آڑ لے کر عقلی دلائل پیش کرنے کی ناکام سعی کی ہے اور کبھی روایات کے جزوی اختلافات سے اپنی گاڑی چلانے کی بے جا
۱؎ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الیٰ السماء اور نزول پر ہم ایک مستقل رسالہ ترتیب دے رہے ہیں۔ انشاء اﷲ العزیز پوری تشریح تو وہاں ہی ہوگی۔ مگر تین حوالے یہاں عرض کئے دیتے ہیں۔ تاکہ مسئلہ قدرے مبرہن ہو جائے۔ علامہ ابوحیان الاندلسیؒ التوفی امام ابن عطیہؒ کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ: ’’واجمعت الامۃ علیٰ ما تضمنہ الحدیث المتواتر من ان عیسیٰ علیہ السلام فی السماء حی وانہ ینزل فی آخر الزمان (تفسیر بحر محیط ج۲ ص۲۷۳)‘‘ {امت کا متواتر احادیث کے پیش نظر اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب نازل ہوںگے۔}
اور علامہ محمد طاہر الحنفی لکھتے ہیں کہ: ’’ویجئی فی آخرالزمان لتواتر خبر النزول (مجمع البحار ج۱ ص۲۸۶)‘‘ {حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب آئیں گے۔ کیونکہ ان کے نزول کی حدیث متواتر ہے۔}
اور امام سیوطیؒ المتوفی ۹۱۱ھ لکھتے ہیں کہ: ’’اما نفی نزول عیسیٰ علیہ السلام اونفی النبوۃ عنہ کلاہما کفر (الحاوی للفتاویٰ ج۱ ص۱۶۶)‘‘ {بہرحال ان کے نزول اور نبوت کی نفی دونوں کفر ہیں۔}