۲… ’’الصدق ینجی والکذب یہلک‘‘ {سچ بولنا نجات دے گا۔ جھوٹ بولنا ہلاک کر دے گا۔}
۳… آپ سے پوچھا گیا۔ ’’ایکون المؤمن کذابا قال لا (مشکوٰۃ ص۴۱۴، باب حفظ اللسان)‘‘ {کیا مؤمن جھوٹا ہوسکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا۔ نہیں جھوٹا شخص مؤمن نہیں ہوسکتا۔}
۴… آپؐ نے فرمایا: ’’لیس المؤمن بالطعان ولاباللعان ولا الفاحش ولا البذی (مشکوٰۃ ص۴۱۳، باب حفظ اللسان)‘‘ {یعنی مؤمن طعنہ بازلعنت کرنے والا۔ فحش بکنے والا اور بے حیا نہیں ہوتا۔}
۵… آپؐ نے فرمایا: بندہ جب جھوٹ بولتا ہے تو اس کی جھوٹی بات کی بدبو اور نحوست کی وجہ سے فرشتہ ان سے ایک میل دور رہتا ہے۔ (مشکوٰۃ ص۴۱۳، باب حفظ اللسان)
حق پر استقامت
۱… مشرکین مکہ کی درخواست پر آپؐ کے چچا ابوطالب نے آپؐ کو بلاکر دعوت حق اسلام سے منع کیا تو آپؐ نے صاف جواب دیا کہ اے چچا اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج دوسرے ہاتھ میں چاند دے کر تبلیغ اسلام سے منع کریں۔ میں ہرگز نہیں رکوں گا۔
۲… آپ کا ارشاد ہے: ’’اذا مدح الفاسق غضب الرب تعالیٰ واھتزلہ العرش (رواہ البہیقی، مشکوٰۃ ص۴۱۴، باب حفظ اللسان)‘‘ یعنی کافر تو کافر جب فاسق کی تعریف کی جائے تو اﷲ غصہ ہو جاتا ہے اور اس کا عرش ہل جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ ص۴۱۴)
مذکورہ بالا باتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی اور رسول ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں اخلاق حسنہ کے ساتھ ایسے اخلاق رذیلہ سے بچنا ضروری ہے۔ جس کی وجہ سے متبعین یعنی پیروی کرنے والے شرم وعارنہ محسوس کریں۔
عالمگیر نبوت
جب تمام خوبیوں کے حامل اور تمام اخلاق رذیلہ سے پاک وصاف عمر کا دوتہائی حصہ یعنی چالیس سال ابنائے زمانہ کے ساتھ زندگی گذار چکے۔ عقل انسانی کے کامل ومکمل ہوجانے کے بعد اکتالیسویں سال کی ابتدائی عمر میں خلعت نبوت سے سرفراز ہوتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے ہیں: