تواضع خاکساری، انسانی راحت رسانی، سیر چشمی اور سخاوت آپؐ کا جزوبن چکی تھی۔ حیاء کا یہ عالم تھا کہ بقول حضرت عائشہ صدیقہؓ آپ کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیا دار تھے۔ کوئی ایسی بات جو ناپسند ہوتی تو اس سے آپؐ درگذر فرماتے۔ کوئی آپؐ سے امید رکھتے تو آپؐ اس کو مایوس نہ کرتے اور نہ منظوری ظاہر فرماتے تھے۔ بلکہ خاموش رہتے تھے۔ مزاج شناس آپؐ کا تیور دیکھ کر آپؐ کا مقصد سمجھ جاتے تھے۔ آپؐ تین باتوں سے خود بھی بچتے تھے اوردوسروں کو بھی بچنے کی تاکید فرماتے۔ (۱)کج بحثی۔ (۲)ضرورت سے زیادہ گفتگو۔ (۳)جو بات مطلب کی نہ ہو اس سے احتراز۔ آپؐ کسی کی عیب گیری نہیں کرتے تھے۔ کسی کی اندرونی حالات کی ٹوہ نہیں لگاتے تھے۔ مفید باتیں کیا کرتے تھے۔ جب آپؐ کلام کرتے تو صحابہؓ اس طرح خاموش ہوکر سنتے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب آپؐ چپ ہو جاتے تو صحابہؓ آپس میں بات چیت کرتے تھے۔ آپؐ نہایت فیاض، راست گو، نہایت نرم طبع تھے۔ اگر کوئی پہلی دفعہ دیکھتا مرعوب ہو جاتا۔ لیکن جیسے جیسے شناسائی ہو جاتی تو آپؐ سے محبت کرنے لگتا۔ آپؐ نے کبھی کسی کو ضرر نہیں پہنچایا۔ آپؐ لوگوں کو اپنے مقابلہ میں ترجیح دیتے تھے۔ آپؐ غریبوں کی دعوت قبول فرمالیا کرتے تھے۔ یتیموں اور مصیبت زدوں کو دیکھ کرہمدردی فرماتے۔ اپنے کھانے میں کسی نہ کسی کو شریک کر لیا کرتے تھے۔ آپؐ عادل اور منصف تھے۔ دوست تو دوست دشمنوں کے ساتھ آپؐ کا لطف وکرم عام تھا۔ سخت سے سخت دشمنوں کے ساتھ آپؐ نے رحم وکرم کا معاملہ کیا۔
اسی طرح تمام اخلاق رذیلہ اور فحش باتوں سے خصوصاً جھوٹ، غیبت، زنا، حسد، کینہ، کبر، طمع ولالچ، چوری وسرقہ، طعنہ زنی، گالی گلوچ، جھگڑا فساد، چغل خوری، منہ دیکھ کر بات کرنا، بے جا مدح وتعریف، فاسقوں اور فاجروں کی تعریف جیسے اخلاق خبثیہ سے اﷲتعالیٰ نے محفوظ رکھ کر ثابت کر دیا کہ نبی ہونے کے لئے ضروری ہے۔ اس میں اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے ساتھ ساتھ وہ اخلاق رذیلہ سے پاک بھی ہو۔ آپؐ کا سچا منصف دیانتدار ہونا کافروں اور فاسقوں کی خوشامد نہ کرنا۔
چونکہ ہر نبی کے لئے ضروری ہے کہ نبوت کے پہلے اور نبوت کے بعد بھی اعلیٰ درجہ کا سچا، راست گو ہو۔ اس کی باتیں سچی اور ان کے افعال وکردار ٹھیک ہوں اور ان کو جھوٹ سے نفرت، جھوٹی باتوں، ریاکاری اور دکھاوے کے افعال سے نفرت ہو۔ اسی قاعدہ کی بناء پر حضورﷺ بھی اعلیٰ درجہ کے سچے اور سچی گفتار اور سچے کردار کے دھنی تھے۔ مسلمان تو مسلمان خود