اور باطل نظریہ کو صحیح اور حق سمجھ کر دیانتہً ثلج صدر کے ساتھ اس کو اپنا لیا جاتا ہے اور اس کو صحیح اور درست ثابت کرنے کے لئے عقلی اور نقلی دلائل اور براہین کی تلاش وجستجو کی جاتی ہے اور تسکین خاطر یا مغالطہ آفرینی کے لئے برائے نام کچھ دلائل پیش کئے جاتے اور کچھ کشید کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ عادۃً عقل انسانی کسی دعویٰ پر بدوں دلیل وبرہان مطمئن نہیں ہوتی۔
دوم… سبب یہ ہے کہ کسی خاص غرض اور مصلحت کے پیش نظر کسی صحیح چیز کو غلط رنگ میں ڈھالنے کی بیحد جدوجہد کی جاتی ہے اور اس کو رائج کرنے کے لئے خوب زمین وآسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔
نظر بظاہر اس دوسری شق کے پیش نظر مرزاغلام احمد قادیانی آنجہانی نے نصوص قطعیہ، احادیث متواترہ اور امت مسلمہ کے اس اتفاقی اور اجماعی عقیدہ کا انکار کیا ہے کہ امام الانبیاء وسید الرسل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰﷺ کو اپنے جسم عنصری کے ساتھ حالت بیداری میں معراج کرائی گئی ہو۔ (اور یہی عقیدہ زمانہ حال کے منکرین حدیث کے پیشرو جناب چوہدری غلام احمد پرویز کا ہے جیسا کہ بیان ہوگا۔ انشاء اﷲ العزیز!)
اور معراج جسمانی کا انکار مرزاقادیانی نے صرف اس لئے کیا ہے کہ اس نظریہ کو صحیح قرار دینے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الیٰ السماء اور پھر آسمان سے نزول خود بخود ثابت ہو جاتا ہے اور اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور رفع الیٰ السماء اور پھر نزول ثابت ہو جائے تو مرزاقادیانی کا دعویٰ مسیحیت خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے مسیح موعود ہونے کا باطل دعویٰ ہی اس امر پر مبنی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور وہ احادیث جو ان کی آمد اور نزول کا ثبوت مہیا کرتی ہیں۔ ان سے ان کے زعم فاسد کے رو سے مثیل مسیح مراد ہے جو بقول مرزاقادیانی وہ خود مرزاقادیانی ہی ہیں۔ (العیاذ باﷲ)
یہی وجہ ہے کہ جب تک مرزاقادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا تو وہ حیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفع الیٰ السماء اور پھر نزول کے قائل تھے اور اسی طرح وہ صریح الفاظ میں معراج جسمانی کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ اگر وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہ کرتے تو ان کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر تشریف لے جانے کے انکار کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی اور پھر وہ آنحضرتﷺ کی معراج کا انکار اور تاویل بھی نہ کرتے اور نہ ان کو اس کی ضرورت ہی پیش آتی۔