حوالہ دینے سے قاصر رہے کہ آخر کس مؤرخ نے کس صدی میں کہاں اور کس جگہ اور کس تاریخ میں ایسی بے پر کی اڑائی ہے اور اس نایاب اور نادر روزگار تاریخ کے وہ کون سے زریں صفحات ہیں جن کا حوالہ پیش کرنے میں مرزاقادیانی اور ان کے مرید آج تک سربگریباں نظر آرہے ہیں۔
جھوٹ کی انتہاء
اب ذرا مرزاقادیانی کے مذکورہ الفاظ کی حقانیت کی کشش ملاحظہ ہو۔ کہیں لکھتے ہیں: ’’سفر کیا ہوگا، گئے ہوںگے۔‘‘ پھر کہیں کہا جاتا ہے: ’’یقینی امر ہے ٹھہرے ہوںگے۔‘‘ کہیں کہہ رہے ہیں: ’’کوچ کیا ہوگا۔‘‘ کہیں بے پر کی اڑا رہے ہیں کہ: ’’یقینی ہے سکونت اختیار کی ہوگی۔‘‘ اور کہیں حافظہ پر زور ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: ’’رہے ہوںگے۔‘‘ ذرا ان لفظوں پر غور فرمائیے کہ ایک مدعی نبوت جسے تمام باتیں وحی اور الہام کے ذریعہ معلوم ہوتی رہتی ہیں وہ واقعات اور حقائق کے میدان میں قدم قدم پر اپنی کذب ودجل اور عیاری ومکاری کے چٹان سے ٹکرا ٹکرا کر خود اپنا سر پھوڑ رہا ہے۔ مرزاقادیانی کو تو چاہئے تھا کہ اتنی زحمت اٹھانے کے بجائے اپنا وہی پرانا اور بوسیدہ حربہ استعمال کرتے کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی قبر کشمیر میں فلاں محلے میں موجود ہے۔ اس طرح مرزاقادیانی اپنی تراشیدہ وخراشیدہ وحی کے ذریعے اپنے مریدوں اور معتقدوں کو بڑی آسانی سے رام کر سکتے تھے اور پیشین گوئی کا وہ حربہ جسے مرزاقادیانی (انجام آتھم، منکوحہ آسمانی، مولانا ثناء اﷲ صاحب کی موت کی پیشین گوئی) میں ہمیشہ استعمال کرتے چلے آئے اور ان حربوں کے استعمال سے مرزاقادیانی واقف بھی ہوگئے تھے اور ان کے لئے کارآمد بھی ثابت ہوچکا تھا۔ کاش مرزاقادیانی کو ان باتوں کا خیال آتا تو ایسی فاش غلطی کے ارتکاب سے توبہ کرتے۔
مزید برآں مرزاقادیانی کا یہ ارشاد بھی آنے والے نبیوں کے لئے سرمہ چشم بصیرت رہے گا ’’اور کچھ بعید نہیں کہ وہاں شادی کی ہو۔‘‘ ’’یاد رہے کہ افغانوں میں ایک قوم عیسیٰ خیل کہلاتی ہے۔ کیا تعجب ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اولاد ہو۔‘‘ کیونکہ مرزاقادیانی نے ہی اس کذب وافتراء کا آغاز کر کے اپنی نبوت اور الہام کا پردہ چاک کر ڈالا۔ بقول مرزاقادیانی کے یہ بھی یقینی امر ہے کہ یوسف علیہ السلام بھی مصر سے افغانستان تشریف لائے ہوں۔ جو شاید اس وقت حکومت مصر کا باجگذار ہوگا اور کچھ بعید نہیں کہ آپ نے یہاں شادی کی ہو اور یہ یوسف زئی قبیلہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد ہو۔ اس کے علاوہ افغانستان میں اور بھی بہت سے قبیلے آباد ہیں۔ مثلاً سلیمان خیل، عمر زئی، عثمان خیل، علی خیل وغیرہ وغیرہ۔ ممکن ہے اس قبیلے کے لوگ بھی