سلیمان علیہ السلام، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ کی اولادوں میں سے ہوں۔ ایسے بے سروپا لغویات اور ہرزہ سرائی میں تو مرزاقادیانی نے کمال کر دیا۔ افسوس کہ مرزاقادیانی احادیث صحیحہ کو ظنیات بلکہ موضوعات قرار دے کر اور خود سودائے نبوت میں اس قسم کی مضحکہ خیز اور بے سروپا باتیں کہہ کر اپنے پیشرؤں کی جانشینی کا خوب خوب حق ادا کیا ؎
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است
اصل واقعہ
مرزاقادیانی کی مذکورہ بالا فساد طرازی پر بحث کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اصل واقعہ بیان کر دیا جائے۔ حضرت ائمہ تفسیر نے آیت ’’وجعلنا ابن مریم وامۃ آیۃ وآوینا الیٰ ربوۃ ذات قرار ومعین‘‘ کی تفسیر میں (امام طبری ص۲۰،۲۱، ابن اثیر ص۱۳۵، ابوالفداء ص۳۵، ابن خلدون ص۱۲۶، ابن سعد ص۲۶) نے تصریح کی ہے کہ شاہ ہیروڈٹسیں کے مظالم سے تنگ آکر حضرت مریم علیہا السلام صدیقہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ان کے ہمراہ ملک شام کو چھوڑ کرمصر آئیں۔ پھر بارہ سال کے بعد مصر سے واپس آکر شہر ناصرہ (شام) میں اقامت اختیار کی۔ یاقوت حموی نے (معجم البلدان ج۸ ص۲۳۷) پر لکھتا ہے کہ بادشاہ مذکورہ کا نام ہاررودس تھا یہ بادشاہ مذہباً مجوس اور مجوسی حکومت کا تاجدار تھا۔ شاہ مذکور کے مرنے کے بعد مریم علیہا السلام مع عیسیٰ علیہ السلام شام واپس آکر ناصرہ میں مقیم ہوئیں اور وہاں اٹھارہ سال تک رہیں۔ پھر تیس سال کی عمر میں حضرت مسیح علیہ السلام کو ان اقوام کی ہدایت وارشاد کے لئے مامور کیاگیا۔ بعدہ تینتیس سال کی عمر میں واقعہ صلیب اور رافع پیش آیا۔ دیکھو (تفسیر ابن کثیر ج۳ ص۱۴۵، ج۹ ص۳۸۰) اسی لئے مسیح علیہ السلام کو ناصری بھی کہتے ہیں۔ یعنی مسیح ناصری۔ بس ؎
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
مرزا کی ناکامی
مصر کے سفر ہجرت کے علاوہ حضرت مسیح علیہ السلام کا کوئی سفر بلاد ہند کی طرف تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا۔ مگر یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ اتفاقات روزگار سے کہیں کتاب (اکمال الدین مصنفہ ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ القمی مطبوبہ ایران ۱۳۰۱ئ) مرزاقادیانی کے ہاتھ لگی ہوگی۔ بس کیا تھا مرزاقادیانی نے وہ وہ کرشمے دکھائے کہ توبہ ہی بھلی۔ کتاب مذکور کے متعلق مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ ہزار برس سے زیادہ کی تصنیف ہے۔ (تحفہ گولڑویہ ص۹، خزائن ج۱۷ ص۱۰۰، ریویو ماہ ستمبر ۱۹۰۳ء ص۳۳۹) مگر حکیم خدا بخش مرزائی (عسل مصفی ج۱ ص۵۸۵) میں ایک