ذیل نقل کیا ہے۔ قاضی موصوف فرماتے ہیں کہ دربار ہارون الرشید میں میرے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا۔ ایک فریق نے ابوہریرہؓ کی روایت بطور سند پیش کی۔ دوسرے فریق نے کہا ابوہریرہؓ کی روایت پر اعتبار نہیں اور وہ جھوٹا ہے۔ خلیفہ نے بظاہر اس کی تائید کی۔ اس پر میں نے چمک کر کہا ابوہریرہؓ نبی کریمﷺ کی احادیث میں راست باز ہیں اور نقل حدیث صحیح طور پر کرتے ہیں۔ میری اس حق گوئی سے خلیفہ ہارون الرشید بہت برہم ہوئے اور میں اسی وقت دربار سے اٹھ کر چلا آیا۔ تھوڑی دیر بعد خلیفہ کا قاصد پہنچا اور کہنے لگا کہ آپ کو امیرالمؤمنین بلاتے ہیں۔ قتل ہونے کے لئے سر سے کفن باندھ کر نکلو یہ سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ یا اﷲ میں تیرے محبوب اور پیارے نبی محمد رسول اﷲﷺ اور آپؐ کے جان نثار صحابیؓ کے اجلال وتعظیم کی خاطر حق گوئی اور راست بازی سے کام لیا تھا۔ اب تو ہی حافظ اور نگہبان ہے۔ جب میں دربار میں پہنچا تو دیکھا کہ خلیفہ آستین چڑھائے خنجر ہاتھ میں لئے کرسی پر بیٹھا ہے اور سامنے ادھوڑی بچھی ہے۔ (اس پر لٹا کر ذبح کرنے کا دستور تھا) خلیفہ مجھے دیکھ کر کہنے لگا تو نے میرے قیصر شکن شاہی دربار کی وہ ہتک کی جس کی نظیر میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ بتا کیا کہنا چاہتا ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ کے اس نظریہ کو تسلیم کرنے سے خودسرکار دوعالمﷺ کی تعلیم پاک کی تنقیص لازم آتی ہے۔ کیونکہ جب حضورﷺ کے صحابہ کذاب ہوئے تو پھر تمام شریعت ہی باطل ہوگئی۔ مثلاً نماز، روزہ، طلاق ونکاح، حج، زکوٰۃ اور حدود شرعیہ سب باطل ہو جائیںگے۔ اس پر خلیفہ کچھ سوچنے لگے۔ پھر فرمایا عمر بن حبیب خدا تجھے سلامت رکھے تو نے مجھے بچا لیا اور مجھے دس ہزار دینار انعام دے کر باعزت واپس کیا۔
اس سے ثابت ہوا کہ گمراہ اہل بدعت جیسے معتزلہ، خوارج، روافض اور ملاحدہ وغیرہ اہل ضلال ایک دوسرے کی ہمیشہ تکفیر کرتے رہے اور احادیث صحیحہ کا بھی انکار کرتے چلے آئے۔ یہ واضح رہے کہ اگر حدیث صحیحہ کا انکار کیا جائے (جس کو متبدعین ملاحدہ) عقائد کے ہر ضروری حصے کو پہلے ہی رد کر چکے ہیں تو پھر ایسی حالت میں رہ ہی کیا جاتا ہے۔ اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ کوئی شارح یعنی شارح قرآن مجید مبعوث ہوا ہی نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ نبوت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ فقط اتنا کافی ہے کہ کوئی دستاویز عرش معلی سے لٹکا دی جائے اور مکلفین خود بخود پڑھ کر حسب مرضی ومنشاء اس پر عمل کرتے جائیں۔
مسیح کی جھوٹی قبر
اب آگے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کے متعلق مرزاقادیانی کا محیرالعقول کارنامہ