قادیانیت کا پہلا زینہ
مرزائیوں کا سب سے پہلا المیہ گمراہ کن زینہ یہ ہے کہ درس قرآن اور تفسیر قرآن میں ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے مسلمان احساس کمتری میں مبتلا ہوکر اپنے اسلاف اور ان کے علمی کارناموں سے قطعاً بدظن ہوجائیں اور ان سے منہ موڑ کر مرزائی لٹریچر کی طرف متوجہ ہوں۔ جس کی نشرواشاعت میں مرزائی زمین وآسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں اور تبلیغ اسلام کے آڑ میں مسلمانوں کے ایمان اور عقیدہ پر ڈاکہ ڈالتے رہتے ہیں۔
(دیکھو ترجمہ قرآن انگریزی وترجمہ بخاری شریف مولفہ مرزا محمدعلی قادیانی )
قادیانیت کا دوسرا زینہ
مرزائیوں کا دوسرا زینہ یہ ہے کہ مرزاقادیانی کو راست باز، برگزیدہ، تمام صفات کاملہ کا مالک اور مکمل انسان تسلیم کیا جائے۔ (مقدمہ تفسیر القرآن مؤلفہ خواجہ کمال الدین لاہوری)
ظاہر ہے کہ جب ایک شخص مرزاقادیانی کو صداقت کا پتلا تسلیم کر لے گا تو پھر اسے نبی اور رسول ماننے میں کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔ کیونکہ وہ شخص اس کے اعلیٰ کردار اور شخصیت پر ایمان لاچکا ہے۔ جسے وہ خطا اور قصور سے مبرا معصوم انسان مان لیا ہے۔ یہی وہ دھوکے کی ٹٹی اور باب مرزائیت ہے۔ جسے لاہوری مرزائی جماعت کے افراد کھلا رکھ کر مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس کے بعد قادیانیت کا ایک اور زینہ شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ زینہ ہے جس پر قدم رکھتے ہی مسلمان ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
قادیانیوں کی ذہنیت
عجب حیرت اور استعجاب کا کام ہے کہ مرزائی اور قادیانی حضرات مرزاقادیانی کی بدزبانی جھوٹے دعوئے نبوت، دعوئے مسیح موعود وغیرہ کے باوجود بھی ان کو نبی مانتے چلے آرہے ہیں اور مرزاقادیانی کی عبرتناک موت سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ بلکہ دن رات دوسرے مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے اور انہیں تبلیغ کی آڑ میں پھانسنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ حدیث صحیحہ کا انکار کرتے ہوئے مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ قرآن کے بعد اب کسی حدیث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ کیونکہ اس کے راوی مردے ہیں تو مرزائی اور قادیانی حضرات کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب مردوں کی روایت غلط اور ناقابل اعتبار ہے تو پھر مرزاقادیانی جو دعوئے نبوت کے بعد مولانا ثناء اﷲ صاحب سے مباہلہ کرتے ہوئے مولانا موصوف کی زندگی ہی