ہزار فوج نے ہتھیار ڈال دیا اور باقی ماندہ تہ تیغ کردئیے گئے۔ مقنع نے قلعہ کے اندر تانبا پگھلا رکھا تھا۔ جب اپنی شکست دیکھی تو تنور میں کود پڑا اور پگھل گیا۔ جب اس کا کچھ پتہ نہ چلا تو اس کے معتقدین نے کہنا شروع کیا کہ آخر خدا تو تھاہی اپنے عرش پر چلاگیا۔ اتنی زبردست طاقت اور جمعیت کے ہوتے ہوئے مقنع نے مذکورہ بالا حرکتیں کیں۔ اسے تو طاقت واقتدار کا نشہ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن مرزا قادیانی کے پاس بجز خشک مراق اور امراض کے رکھا ہی کیا تھا۔
احادیث سے انکار
یہ بات ہمیشہ یاد رکھئے کہ مرزا قادیانی سے پہلے ہر دور میں مدعی نبوت، معتزلہ، خوارج، وغیرہ اہل اہوا نے احادیث صحیحہ کے انکار ہی میں اپنی سلامتی اور عافیت دیکھی۔ انہوں نے احادیث صحیحہ کے ان تمام ذخیروں کو جو (اسوۂ ختم الرسلﷺ کی زندہ شرح ہے) خطرے میں ڈالنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔ کیونکہ ان کے اس طرح کرنے سے اجماع جس کی بنا حدیث نبویؐ پر ہے خود بخود بے حقیقت ہوکر رہ جائے گی۔ جس کی تفصیل یوں ہے کہ نظام معتزلی نے اجماع صحابہ کو غلط قرار دیتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ امت محمدیہؐ گمراہی پر مجتمع ہوسکتی ہے۔ (الفرق ص۳۱۵) حالانکہ حضورؐ کا ارشاد ہے ’’لا تجتمع امتی علی الضلالہ (مشکوٰۃ ص۳۰، باب باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)‘‘ {میری امت ہرگز گمراہی پر اجماع نہیں کرسکتی تھی۔ یعنی ساری امت گمراہ نہیں ہوسکتی۔} اب ہمیں اچھی طرح اس نکتہ کو سمجھنا چاہئے کہ احادیث صحیحہ کے انکار کے پردے میں وہ کون سا راز پوشیدہ ہے جس کی بنا پر اہل باطل کا حملہ سب سے پہلے حدیث ہی پر ہوتا ہے۔ مگر اہل حق کی نگاہوں سے کوئی راز چھپا نہیں رہتا۔ علماء حق نے اعلان کردیا اور وضاحت کے ساتھ بتادیا کہ انکار حدیث سے ابطال اجماع وقیاس لازم آئے گا۔ اس انکار کے بعد اب صرف ایک چیز کتاب الٰہی رہ جائے گی۔ جس کو ہرزندیق وملحد اپنی ہوائے نفس اور جاہ طلبی کی غرض سے توڑ موڑ کر پیش کرتا رہے گا۔ اس خطرۂ عظیم کو محسوس کرتے ہوئے حافظ ابن القیم نے الجیوش المرسلہ جیسی معرکتہ الآر اتصنیف لکھی۔ تاکہ شرع محمدیؐ کے اصول اربعہ (کتاب سنت واجماع قیاس) کو اہل ہواء کے حملوں اور فریب سے بچایا جاسکے۔ علماء اسلام کے نزدیک نظام معتزلی کافر اور ملحد ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے اس راز دروں پردہ کو پالیا۔ اسی لئے مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کہیں احادیث صحیحہ کا انکار کرتی ہے۔ کہیں فقہ اسلامی پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ فرقۂ باطنیہ کی طرح مرزائی دعوت کے بھی مدارج مقرر کئے ہوئے ہیں۔
(دیکھو کتاب الفرق بغدادی ص۲۸۲)