مقدمہ!
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۰ اما بعد!
اس پرفتن اور پرآشوب دور میں خداتعالیٰ اور برگزیدہ رسول، مذہب اسلام اور دین قویم عقائد حقہ اور اعمال صالحہ سے جو استہزاء اور تمسخر کیا جاتا ہے اس کی نظیر سابق زمانہ میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی ہرگز دستیاب نہیں ہوسکتی۔ خداتعالیٰ اور اس کے رسول برحق، شریعت اور روحانیت کے خلاف ایسا منظم اور مکروہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ جس کی مثال قرون سابقہ میں ناپید ہے اور پروپیگنڈا ہی اس دور میں ایک ایسی خطرناک اور خاموش آگ ہے جو اندر ہی اندر سلگ کر تمام متاع دین ودانش اور اثاثۂ مذہب وروحانیت کو آن کی آن میں راکھ کا ڈھیر بنادیتی ہے اور سطح سے اوپر اس کے مسموم دھوئیں کا مدھم سا نشان بھی بسا اوقات محسوس نہیں کیا جاسکتا۔
یہ وہ دھیمی پرسکون منظم مگر مکروہ اور قبیح سازش ہے جس کی بدولت آہستہ آہستہ تدریجاً تدریجاً بلا روک ٹوک اور غیر محسوس طریقہ پر اشیاء کے حسن وقبح اور ان کی خوبی اور خرابی کی حقیقت اور نوعیت اور دیکھنے والوں کے نگاہوں کے زاویئے یک لخت اور یکسر بدل جاتے ہیں اور اس کے بعد ایک ملحد اور زندیق ایک منافق اور دھریہ جس قدر چاہتا ہے، جس طرح چاہتا ہے، جب چاہتا ہے اور جس سے چاہتا ہے تسلیم کرالیتا ہے اور برائے نام عقلی اور نقلی دلائل کی آڑ لے کر عقائد واعمال، مذاہب ومسالک کو بزعم خود خس وخاشاک کی طرح بہا کر ان کو بالکل ناپید یا اپنی نارسا عقل کے تابع کرنے کی بے جا اور ناکام کوشش اور کاوش کرتا ہے۔ مگر رضائے الٰہی اور قدرت خداوندی کے سامنے اس کی ناپاک سعی خود ملیامیٹ ہوکر رہ جاتی ہے۔ کیونکہ:
’’واﷲ متم نورہ ولوکرہ الکافرون‘‘ غور اور فکر کرنے والی قومیں بلکہ اشخاص وافراد بھی جب کسی غلطی میں مبتلا ہوکر غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی غلطی کے اصولاً صرف دو ہی سبب قرار دیئے جاسکتے ہیں اور عقلاً ہیں بھی صرف یہی دو سبب۔
اوّل… یہ کہ کسی عقیدہ اور عمل کے سمجھنے میں غلطی اور خطا واقعی ہوتی ہے اور اس غلط