۱۸تا۲۰… ’’اور ممکن کہ شیطان لعین نے حضرت مسیح کے دل میں اس قسم کے خفیف وسوسہ ڈالنے کا ارادہ کیا ہو اور انہوں نے قوت نبوت سے اس وسوسہ کو رفع کردیا ہو اور ہمیں یہ کہنا اس مجبوری سے پڑا ہے کہ یہ قصہ صرف انجیلوں ہی میں نہیں ہے بلکہ ہماری احادیث صحیحہ میں بھی ہے۔‘‘ (ضرورۃ الامام ص۱۵، خزائن ج۱۳ص۴۸۵،۴۸۶)
جو حدیث مرزا قادیانی نے اس کے بعد بیان کی ہے۔ اس کو اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کسی مرزائی نے اس حدیث کو بیان کیا تو پھر خدا چاہے ہم مرزا قادیانی کی طرح مرزائیوں کا جہل بھی ثابت کردیں گے۔ یہاں بھی چونکہ احادیث کا لفظ جمع ہے۔ اس وجہ سے کم سے کم مضمون بالا کی تین صحیح حدیثیں کتب معتبرہ حدیث سے بیان کرنا چاہئیں۔
۲۱تا۲۳… ’’احادیث صحیحہ بآواز بلند بتلارہی ہیں کہ مسیح کے دم سے اس کے منکر خواہ وہ اہل کتاب ہیں یا غیر اہل کتاب۔ کفر کی حالت میں مریں گے۔‘‘
(ازالہ ص۳۶۹، خزائن ج۳ص۲۸۹)
لاہوری امیر ذرا غور سے اس مقام کو ملاحظہ فرمائیں۔ مطالبہ یہ ہے کہ مضمون مذکور سے لازم آتا ہے کہ جو مرزا قادیانی کو نہ مانے وہ کفر کی موت مرے گا اور لاہوری مرزائی مرزا قادیانی کے منکرین کو کافر نہیں بلکہ مسلمان ہی کہتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ لاہوری مرزا قادیانی کے ساتھ جہنم میں جاتے ہیں یا صرف مرزا قادیانی کو دھکا دیتے ہیں۔ تو پھر مرزائیت ہاتھ سے جاتی ہے:
سنبھل کے رکھنا قدم دشت خار میں مجنون
کہ اس نواح میں سودا برہنہ پا بھی ہے
’’اوّل تو جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کی کوئی جزو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صد ہا پیش گوئیوں میں سے یہ ایک پیش گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔‘‘ (ازالہ ص۱۴۰، خزائن ج۳ص۱۷۱)
’’کیونکہ اگر مسیح کے اترنے سے انکار کیا جائے تو امر مستوجب کفر نہیں۔‘‘
(ازالہ ص۲۷۴، خزائن ج۳ ص۲۳۹)
کہاں مسیح کے منکر کافر مریں گے اور کہاں سرے سے انکار مستوجب کفر ہی نہیں۔ پھر مرزا قادیانی کی مسیحیت کاذبہ کہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نفس مبارکہ سے کافروں کا مرنا اور