کہاں مضمون مذکور۔ جس کو احادیث کی طرف نسبت کیا جاتا ہے۔ ایمان تو نصیب اعداء غریب مرزائیوں کو اس سے کیا تعلق۔ ہاں لیاقت کا تجربہ بھی ابھی ہوجائے گا۔
۲۴… ’’منجملہ ان کے وہ مہدی بھی ہے جس کا نام حدیث میں سلطان مشرق رکھا گیا ہے۔‘‘ (نشان آسمانی ص۱۰، خزائن ج۴ ص۳۷۰)
۲۵… ’’لیکن بڑی توجہ دلانے والی یہ بات ہے کہ خود آنحضرتﷺ نے ایک مہدی کے ظہور کا زمانہ وہی قرار دیا ہے جس میں ہم ہیں اور چودھویں صدی کا اس کو مجدد قرار دیا ہے۔‘‘ (نشان آسمانی ص۱۰، خزائن ج۴ ص۳۷۰)
۲۶تا۲۸… ’’اب واضح ہوا کہ احادیث نبویہ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ آنحضرتﷺ کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جو عیسیٰ اور ابن مریم کہا جائے گا اور نبی کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۰، خزائن ج۲۲ص۴۰۶)
۲۹… ’’جاننا چاہئے کہ اگرچہ عام طور پر رسول اﷲﷺ کی طرف سے یہ حدیث صحیح ثابت ہوچکی ہے کہ خدا تعالیٰ اس امت کی اصلاح کے لئے ہر ایک صدی پر ایسا مجدد مبعوث کرتا رہے گا جو اس کے دین کو نیا کرے گا۔ لیکن چودھویں صدی کے لئے اس بشارت کے بارہ میں جو ایک عظیم الشان مہدی چودھویں صدی کے سرپر ظاہر ہوگا۔ اس قدر بشارات نبویہ پائی جاتی ہیں جو ان سے کوئی طالب منکر نہیں ہوسکتا۔ ہاں اسی کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ جب وہ ظہور کرے گا تو علماء اس کے کفر کے فتویٰ دیں گے اور نزدیک ہے کہ اس کو قتل کردیں۔‘‘
(نشان آسمانی ص۱۸، خزائن ج۴ ص۳۷۸)
۳۰… ’’یہ ضرور تھا کہ قرآن واحادیث کی وہ پیش گوئیاں پوری ہوتیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ وہ اس کو کافر قرار دیں گے۔ اس کے قتل کے لئے فتوے دئیے جائیں گے اور اس کی سخت توہین کی جائے گی۔ اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔‘‘
(اربعین نمبر۳ص۱۷، خزائن ج۱۷ص۴۰۴)
چونکہ حدیث میں تیس جھوٹے مدعیان نبوت کو دجال کہہ کر ان کی خبر دی گئی تھی۔ اس وجہ سے ہم نے بھی اس وقت مرزائی تیس ہی دجل کو ظاہر کرکے جہنم کا فرسٹ کلاس ٹکٹ دلوایا ہے۔