کے لئے حجت ہے۔ نبی پر جائز نہیں کہ سکر کی حالت طاری ہو جائے۔ برخلاف اولیاء کے کہ ان پر حالت سکر طاری ہوسکتی ہے۔ قادیانی حضرات ایک بھی ایسا نبی پیش کردیں جس نے ایسے استعارات حاملہ اور حائضہ کے استعمال کئے ہوں۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ قادیانی ایک نبی بھی ایسا پیش نہیں کرسکتے۔ اگرچہ دفتروں کے دفتر چھانٹ لیں۔ یونہی بات بنانا اور خواہ مخواہ ادھر ادھر کی گپ لگانا اپنے اوقات عزیز کو ضائع کرنا ہے۔ اگر حق اور دین حق کی جستجو ہے تو مذکورہ مزخرفات ایک جوئندہ حق کے لئے کافی ہیں اور جو حق ہی کو طلب نہ کرے۔ اس کا کیا علاج اور پھر طرہ یہ کہ مرزاقادیانی باوجود اس کے حافظہ کی قوت سے بھی محروم تھے تو پھر نبی کیونکر ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ: ’’مکرمی اخویم سلمہ… میرا حافظہ بہت خراب ہے۔ اگر کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں۔ یاد دہانی عمدہ طریقہ ہے۔ حافظ کی یہ ابتری ہے کہ بیان نہیں کر سکتا۔‘‘
(مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۳ ص۲۱)
اور نیز مرزاقادیانی کے اکثر قویٰ ضعیف تھے۔ اس صورت میں متیقن ہے کہ اکثر اوقات کچھ سے کچھ بیان کرتا رہے گا اور اس کے کسی قول پر اعتماد ہرگز نہیں ہوسکتا اور یہ نبوت کی شان کے منافی ہے۔ چنانچہ رقم طراز ہیں کہ:
سو سو مرتبہ پیشاب
’’میں ایک دائم المرض آدمی ہوں… ہمیشہ دردسر اور دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے اور دوسری… بیماری ذیابیطس ہے کہ ایک مدت سے دامن گیر ہے اور بسا اوقات سو سو دفعہ رات کو یا دن کو پیشاب آتا ہے اور اس قدر کثرت پیشاب سے جس قدر عوارض ضعف وغیرہ ہوتے ہیں۔ وہ سب میرے شامل حال رہتے ہیں۔‘‘
(ضمیمہ اربعین نمبر۴، خزائن ج۱۷ ص۴۷۰)
مختصر یہ کہ مرزاقادیانی ہرگز نبوت کے شایان نہ تھے۔ نبی جھوٹے الہام بیان نہیں کیا کرتا اور نہ نبی جھوٹ بولتا ہے اور نہ وہ لعان ہوتا ہے۔ نبوت کے دلائل قرآن وحدیث سے پیش کر کے اس کو مرزاقادیانی پر منطبق کرنا محض بیکار ہے۔ نبوت کے لئے اصل کریکٹر ہے اور جب تک انسان کریکٹر اور اخلاق کی کسوٹی پر پورا نہ اترے نبی نہیں ہوسکتا۔ ورنہ آج سیکڑوں شرابی اور افیونی دعویٰ کریں گے کہ ہم بھی نبی ہیں۔ قادیانی صاحبان کو چاہئے کہ اوّل مرزاقادیانی کی اخلاقی