حیثیت اور پوزیشن صاف کر لیں۔ مرزاقادیانی کے اخلاق تو ناظرین رسالہ نے مطالعہ کئے۔ آپ کے اخلاق اور اقوال وافعال میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ مرزاقادیانی اگر نبی ہو سکیں تو کریکٹر انکار کرتا ہے۔ متضاد الخیال اور متناقض الاقوال اور متلون الافعال ہونے کے سوا مرزاقادیانی میں اور کچھ نہیں۔ چونکہ رسالہ میں زیادہ گنجائش نہیں۔ اس واسطے میں یہیں پر اس مبحث کو ختم کر کے اﷲ جل شانہ کے دربار میں دست بدعا ہوں کہ اے اﷲ مسلمانوں کو اس فتنہ کے زہریلے جراثیم اور مہلک اثرات سے بچا اور ہمارے حال پر رحم فرما۔ اے اﷲ مسلمانوں کو قادیانی دام تزویر سے محفوظ رکھ۔ اب میں ناظرین رسالہ سے اپیل کروں گا کہ رسالہ کو نہایت غور سے مطالعہ کریں اور پڑھنے کے بعد دوسروں کو بھی اس سے متمتع ہونے کا موقع دیں اور اس مختصر مگر مکمل نقشہ کو دوسروں کو بھی دکھادیں۔ تاکہ مسلمان اصلی اور حقیقی حال سے مطلع ہوکر اس نوزائیدہ فتنہ سے محترز رہیں۔
’’واٰخرد عونا ان الحمد ﷲ ب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی سید النبیاء خاتم المرسلین وصحبہ الطاہرین‘‘
مرزائیوں سے ایک ضروری سوال
اگرچہ کتاب ختم ہوچکی۔ لیکن ناظرین کے افادہ کے لئے مندرجہ بالا عنوان قائم کر کے مرزائیوں پر حجت قائم کرنا ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ خداوند کریم کسی منصف اور طالب حق کو اس کے ذریعہ اپنے مطلب پر فائز کر دے۔ مرزائی صاحبان سے سوال یہ ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ: ’’من کذب علی متعمداً فلیتبوا مقعدہ من النار (مسلم ج۱ ص۷)‘‘ {کہ جو شخص مجھ پر قصداً جھوٹ بولے تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنائے۔} اس کا گھر آگ ہے ار یہ حدیث باتفاق امت متواتر ہے اور حدیث متواتر مفید قطع ویقین ہوتی ہے اور مرزاقادیانی بھی اس کو تسلیم فرماتے ہیں کہ تواتر مفید علم ہے۔ اسلام تو اسلام غیر اقوام بھی تواتر کو مانتی ہیں۔ مرزاقادیانی (ازالہ اوہام ص۵۵۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) پر فرماتے ہیں کہ: ’’بات ظاہر ہے کہ تواتر ایک ایسی چیز ہے کہ اگر غیرقوموں کی تواریخ کی رو سے بھی پایا جائے تو تب بھی ہمیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘ اور اس سے ایک سطر پہلے فرماتے ہیں کہ: ’’لیکن وہ اس قدر متواترات سے انکار کر کے اپنے ایمان کو خطرہ میں ڈالتے ہیں۔‘‘ معلوم ہوا کہ حدیث متواترکا انکار مرزاقادیانی کے